انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ باقی پارٹیوں کی طرح، تحریکِ انصاف کے وڈیو اشتہارات بھی ٹی- وی چینلز کو رونق بخش رہے تھے۔ ان میں سے ایک وڈیو اشتہار میں دکھایا گیا تھا کہ ایک نوجوان بلّا پکڑے مرسیڈیز جیسی قیمتی کاروں کے ایک قافلے کو زبردستی روک رہا ہے، اور پس منظر میں ”ہم دیکھیں گے“ نظم گائی جا رہی ہے۔ اس وڈیو اشتہار کو دیکھ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کے انچارج، زبیر عمر نے، جنھوں نے پارٹی کے مینی فیسٹو کے معاشی پہلو کی تعیین میں بھی حصہ لیا، پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیئر وائس پریزیڈینٹ، اسد عمر کو فون کیا، جو ان کے بڑے بھائی ہیں۔ انھوں نے اسد عمر کو بتایا: ’نہ صرف آپ اور میں، بلکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے بیشتر لیڈر مہنگی کاروں میں سفر کرتے ہیں، جو ان کے استعمال میں ہیں۔ تو آپ نوجوانوں کو کہاں لے جار ہے ہیں؟‘ اسد عمر اور زبیر عمر کے تیسرے بھائی، جو کراچی سٹاک ایکس چینج کے سربراہ ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کے حامی ہیں، مگر صدر آصف علی زرداری انھیں بہت پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی متعدد مرتبہ اسد عمر کو فون کر کے یہ بتایا کہ تحریکِ انصاف کے کئی اشتہارات میں، جو پیغام پوشیدہ ہے، وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ زبیر عمر کے مطابق تحریکِ انصاف کے ایک اشتہار کا پیغام ان لوگوں کے لیے منفی مفہوم کا حامل تھا، جو روزگار کے لیے غیر ممالک میں جاتے ہیں۔ جبکہ، ان کی رائے میں، حقیقت یہ ہے کہ غیر ممالک نے، ان سمیت، پاکستانیوں کی کثیر تعداد کو روزگار کے لاتعداد مواقع مہیا کیے ہیں۔
تحریکِ انصاف کا ایک وڈیو اشتہار ایک ٹی- وی چینل پر میری نظر سے بھی گزرا۔ یہ پٹواریوں (یا سرکاری ملازموں) کی بد عنوانی کے خلاف ہے، اور دکھاتا ہے کہ تحریکِ انصاف ان کی بدعنوانی کا تدارک کیسے کرے گی۔ اس اشتہار میں ایک کردار، دوسرے کردار کو رشوت دے رہا ہے، قریب ہی ایک نوجوان بلّا تھامے کھڑا ہے اور اسے اس انداز میں ہلا رہا ہے کہ اگر اس نے رشوت لی تو وہ اس بلّے سے اسے ”پھینٹی“ لگا دے گا۔ رشوت لینے والا کردار ڈرجاتا ہے، اور رشوت واپس کر دیتا ہے۔ یہ اشتہارات، تشدد کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ خود ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے، میں نے بھی اس کا مظاہرہ دیکھا۔ نوجوانوں کا رویہ تکبر اور تشدد سے آمیز تھا۔ اپنے سوشلسٹ دوستوں کا ایک واقعہ بھی یاد آتا ہے۔ ان میں سے کچھ ٹریفک قوانین کے بارے میں لاپروا تھے، اور سمجھتے تھے کہ ان کی پامالی، ریاست دشمنی کی علامت ہے۔ میرا سوال یہ تھا کہ فرض کریں کل کلاں پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب آ جاتا ہے تو آپ شہریوں سے ٹریفک قوانین کی پابندی کیسے کروائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہماری حکومت آئے گی، تب دیکھا جائے گا۔
انتخابات سے قبل بھی تحریکِ انصاف کا رویہ ایسا ہی معلو م ہوتا تھا اور انتخابات کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی۔ ایک نوجوان، جو کچھ باغی، کھلنڈرا، غافل اور غیر ذمے دار ہوتا ہے، اور ٹِک کر کوئی کام، کوئی نوکری نہیں کرتا، تو اس کے والدین اسے سدھارنے کے لیے اس کی شادی کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اس طرح گھرداری اور بیوی بچوں کا بوجھ اسے ذمے دار بنا دے گا۔ چلیں اب تحریکِ انصاف کی چھوٹی موٹی شادی ہو گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جہاں تحریکِ انصاف شادی کرنا چاہتی تھی، وہاں سے انکار ہو گیا۔ یہ بھی درست ہے کہ تحریکِ انصاف اپنی اس شادی سے ناخوش ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اس کی پسند کو کوئی اور”زبردستی“ بیاہ کر لے گیا ہے۔ یعنی تحریکِ انصاف کو انتخابات میں وفاقی حکمرانی کا مینڈیٹ نہیں مل سکا، جس کے لیے اس نے اپنا ذہن بنایا ہوا تھا، اور اسے صرف صوبہ خیبر پختونخوا میں حکمرانی کا مینڈیٹ ملا ہے۔ تاہم، شہریوں کا مینڈیٹ کسی بھی پارٹی یا لیڈر کو ملے، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ وفاقی اور صوبائی ہر دو مینڈیٹ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ تحریکِ انصاف، پُر امن اور ذمے دارانہ طرزِعمل کا مظاہرہ کرے۔
یہ آج کی بات نہیں۔ تحریکِ انصاف اول روز سے تکبر کا شکار ہے۔ اس کا یہ تکبر اس مفروضے پر مبنی ہے کہ اس کے علاوہ ہر فریق، کرپٹ، بد عنوان، لٹیرا، جھوٹا، دروغ گو اور فریبی ہے۔ تنہا یہی ایک پارٹی ہے، جو دیانت دار، نیک، پارسا اور پاک صاف ہے۔ یہ مفروضہ تحریکِ انصاف کے مائنڈ سیٹ کا حصہ ہے۔ اور پھیل کر اس کے ہر سطح کے لیڈروں اور کارکنوں کے ذہن میں جا گزیں ہو چکا ہے۔ تحریکِ انصاف، بزعمِ خود یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی ” اصلاح“ کا فریضہ اس کے کاندھوں پر ہے، اور کوئی اور پارٹی یا لیڈر یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ بس یہی ہے، جو ملک کے بیٹرے کو پار لگا سکتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اس کے تکبرکی پیداوار ہے، بلکہ اس رویے نے اس کے تکبر، غرور اور گھمنڈ کو دوسروں کے لیے رعونت، نخوت، حقارت، نفرت اور تشدد میں بھی ڈھال دیا ہے۔ تحریکِ انصاف کو ”تزکیۂ نفس“ درکار ہے، اور اب جبکہ اس پر شہریوں نے مینڈیٹ کی ذمے داری کا بوجھ ڈال دیا ہے، اس سے بہتر وقت کونسا ہو گا کہ یہ اپنے خبطی تصورات سے باہر نکلے، اور حقیقت کی دنیا کو سمجھے اور اس میں اپنے لیے معقول طریقے سے جگہ بنائے، اور دوسروں کے وجود کو قبول کرے۔
خود مجھے تحریکِ انصاف سے بہت توقعات تھیں۔ تاہم، جیسی سیاسی پارٹی کی پاکستان کو گذشتہ کافی عرصے سے ضرورت ہے، یہ اس معیار پر پوری نہیں اتر پائی۔ یہ ابتدا سے ہی تکبر کا شکار رہی۔ یہ تکبر اسے سیکھنے اور آگے نہیں بڑھنے دے رہا۔ اس کا یہی تکبر ہے، جو تشدد میں متشکل ہو رہا ہے، جس کا مظاہرہ انتخابات کے دوران اشتہارات کی صورت میں ہوا۔ بلکہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے اس کا جوردِ عمل اورطرزِ عمل سامنے آیا ہے، وہ چغلی کھاتا ہے کہ تکبر اور تشدد کا رجحان اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ اسے عوامی نیشنل پارٹی سے کچھ سیکھنا چاہیے، جس نے کس فراخ دلی سے شکست کو قبول کیا ہے۔ اصل میں، خود تحریکِ انصاف نے اور میڈیا نے، انتخابات میں اس کی جیت کے حوالے سے، بہت بڑی بڑی توقعات پیدا کر دی تھیں۔ اب اس کا متکبر انداز اسے انتخابات کے نتائج کو سمجھنے نہیں دے رہا۔ اسے یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ جنھیں یہ کرپٹ اور بد دیانت کہتی تھی، شہریوں نے انھیں ووٹ کیوں دے دیا۔ کراچی کا معاملہ مختلف ہے۔ باقی ملک میں یقیناً یہاں وہاں کچھ نہ کچھ دھاندلی ضرور ہوئی ہو گی، مگر اس بنیاد پر پورے انتخابات کی سچائی پر سوال کھڑا کر نا، اس کے تکبر کو عیاں کرتا ہے۔ مزید یہ کہ فرض کریں، دھاندلی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے تو کیا اس کے حل کے لیے متشددانہ طریقے اختیار کیے جائیں گے۔
آئیے ذرا ” تکبر“ کے لفظ اور مفہوم پر نظر ڈالتے ہیں۔ لغات کے مطابق تکبر، انانیت، اور بڑائی کا اظہار ہے۔ اصطلاحاتِ تصوف کی ایک لغات میں، اسے اعمال سے بے نیازی قرار دیا گیا ہے۔ ذرا غور سے دیکھا جائے تو تکبر سے تشدد تک بس ایک چھوٹے سے قدم کا فاصلہ ہے۔ اٹھنے والا پہلا قدم تکبر ہے، تو پڑنے والا دوسرا قدم تشدد۔ جو شخص، تکبر کا شکار ہو، اس میں تشدد پہلے ہی جگہ بنا لیتا ہے۔ مراد یہ کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ باقی سب غلط، اور تنہا وہ درست ہے، تو باقی لوگوں کو درست بنانے کے لیے تشدد سمیت ہر طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تشدد پسند گروہوں کی سوچ کا انداز اس سے مختلف نہیں۔ کیا تحریکِ انصاف بھی اسی سوچ کی حامل ہے؟ مجھے شروع ہی سے یہ تشویش لاحق رہی ہے کہ تحریکِ انصاف، پاکستان اور بالخصوص نوجوانوں کو کس طرف لے جا رہی ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی تکبر اور تشدد بہت زیادہ ہے، کیا تحریکِ انصاف اس میں اضافہ کرنے پر تلی ہے۔ جیسا کہ تکبر کو اعمال سے بے نیازی کہا گیا تو کیا تحریکِ انصاف یہ سمجھتی ہے کہ یہ اعمال سے بے نیاز ہے اور اعمال کے وجود سے پہلے ہی نیک، دیانت دار اور صاف ستھری بن گئی ہے۔ تحریکِ انصاف کو بہت اچھا موقع ملا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائے، اور ایک ایسی مثالی حکمرانی قائم کرکے دکھائے، جو دوسری پارٹیوں کے لیے ایک نمونہ ہو، یوں، یہ اپنے اعمال سے یہ ثابت کر سکے گی کہ یہ بہترین پارٹی ہے، اور باقی سب پارٹیاں ”چھان بورا“ ہیں!
[یہ کالم بوجوہ شائع نہ ہو سکا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں