سیاست دانوں سمیت ایلیکشن کمیشن کے سربراہ سب کے سب یہ کہتے تھک نہیں رہے کہ انتخابات نہ ہوئے تو پاکستان کی بقا اور مستقبل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ معلوم نہیں وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، اور حقیقتاً کس کی بقا اور کس کے مستقبل کی بات کر رہے ہیں۔ فرض کریں اگر 2008 میں انتخابات نہ ہوتے تو کیا پاکستان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ میں یہ بالکل نہیں کہنا چاہ رہا کہ انتخابات نہ ہوں، یا ملتوی کر دیے جائیں۔ تمام دہشت گردی اورایک دو جماعتوں کی التوا کی کوشش کے باوجود انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔ بلکہ صرف انتخابات نہیں، ریاست کے معاملات سے متعلق ہر کام آئین اور قانون کے مطابق وقت پر ہونا چاہیے، تاکہ شہریوں میں یہ اعتماد جڑ پکڑے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہو گا، اورکسی انہونی کے ہونے کا اب کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام اسی طرح پیدا ہوگا۔
اصل میں میرے خدشات کچھ اور ہیں۔ اگرانتخابات سے کسی کی بقا وابستہ ہے تو اس اشرافیہ کی بقا وابستہ ہے، جس نے ریاست پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ پہلے مجھے کچھ ایسا ہی محسوس ہوا تھا کہ غالباً یہ انتخابات کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں۔ لیکن اب میری امیدیں، خدشات میں بدل رہی ہیں۔ سب سے بڑا خدشہ تو یہ ہے کہ گذشتہ انتخابات کی طرح موجودہ انتخابات سے بھی بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیئیں۔ انتخابات ہو جائیں گے۔ جیتی ہوئی پارٹیوں کی اتحادی حکومت بنانے کی سیاست ہو گی۔ حکومت بن جائے گی۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ کوئی بڑی اور اہم تبدیلی آنے والی نہیں۔ تبدیلی سے مراد ایسی تبدیلی ہے، جو عام شہریوں کی زندگی کو آسان بنا سکے۔ ہاں، ہو سکتا ہے کہ کہیں کسی شعبے میں کچھ نہ کچھ بہتری آ جائے، تاہم، جو کچھ اچھا ہو گا، وہ شہریوں کے لیے نہیں ہو گا۔ جتنا کچھ بُرا ہو گا، وہ سب عام شہریوں کے حصے میں آئے گا۔ مجموعی طور پر عام شہریوں کی زندگی اور مشکل ہو جائے گی۔
اب جبکہ ہر پارٹی نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ انھوں نے اپنے انتخابی منشوروں میں کیا لکھا، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان پارٹیوں کے ہر سطح کے رہنما اپنے جلسوں اور ”جلسیوں“ میں کیا کہہ رہے ہیں، انسانی سروں کی جو نمائش کر رہے ہیں، اس کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ سب بے معنی ہے۔ بالخصوص جو وعدے کیے جا رہے ہیں، جو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں، لا یعنی ہیں۔ یہ سب لفاظی ہے، جس کا کوئی مطلب نہیں۔ ذرا غور سے سیاسی لیڈروں کی تقریروں میں فرق تلاش کیجیے۔ ہر پارٹی انتخابات جیت کر کیا کرنا چاہتی ہے، اس میں فرق ڈھونڈیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، سب سیاسی پارٹیاں اور سب سیاسی رہنما جو کچھ کہہ رہے ہیں، اور جو وعدے وعید کر رہے ہیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مضمرانہ طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب انتخابات جیت کر اور حکومت میں آ کر جو کچھ کریں گے، اس میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اتنی بھانت بھانت کی پارٹیوں کے وجود کا کیا مطلب۔ پاکستا ن کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان، جو باتیں مشترک ہیں، انھیں نفی کرتے جائیں تو آخر میں کیا بچتا ہے، شخصیت۔ مراد یہ کہ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کا تنوع دراصل شخصیات کا تنوع ہے۔ یہاں ہر سیاسی پارٹی، لیڈر کی شخصیت سے پہچانی جاتی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کی کوئی اور پہچان تلاش کرنا بہت مشکل کام ہو گا۔
تو پھر انتخابات کا کیا مطلب؟ یہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ شہریوں کو کس طرف ہانکا جا رہا ہے؟ ”آلو پارٹی“ کی نہیں، تو ”بینگن پارٹی“ کی حکومت بن جائے گی۔ تو انتخابات سے کس کی بقا وابستہ ہے۔ انھیں پارٹیوں، اور انھیں لیڈروں کی۔ مجھے قبول ہے کہ ایک مخصوص پارٹی کے حکومت میں آنے سے کچھ بڑے اہم آئینی اور سیاسی معاملات کی کوئی سمت متعین ہو سکے گی، لیکن میرے خدشات یہ ہیں کہ ان انتخابات سے عام شہری جو توقعات وابستہ کر رہے ہیں (وہ تو ہر انتخاب سے اور ہر سبز باغ دکھانے والے سے ایسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں!)، یا سیاسی لیڈر ان کی جو توقعات بنا رہے ہیں، وہ سب ٹوٹ کر، کرچی کرچی ہو جائیں گی۔ نئی حکومت کے بننے کے ایک برس کے اندر اندر مایوسیوں کا پہاڑ ٹوٹے گا، اور بہت کچھ اس کے تلے دب جائے گا۔ تو کیا انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں؟ کیا وہ عام شہریوں کے لیے کچھ مثبت، کچھ بہتر نتائج پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتے؟ نہیں، ایسا نہیں۔ مگر پاکستان میں 65 برس گزرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے۔
یہی سبب ہے کہ مجھے شکاریات کی ایک اصطلاح یاد آ رہی ہے: ہانکا۔ ہانکا کیا ہوتا ہے؟ ایک لغت کے مطابق، ہانکا، ہانکنے کا فعل ہے؛ شکار کے لیے جھاڑیوں میں سے جانوروں کو ہانک کر باہر نکالنے کا عمل۔ ایک اور لغت کے مطابق ہانکا، شکاری جانوروں کے ہانکنے کا فعل ہے۔ شکاریات کے تذکرے پڑھیے، ان میں ہانکے کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ عام طور پر جب بادشاہ، امرا، رؤسا شکار کرنے کے لیے نکلتے تھے تو پہلے جنگل میں ہانکا لگایا جاتا تھا۔ بڑی تعداد میں لوگ ڈھول بجاتے، شور مچاتے جانوروں کو ایک خاص سمت میں ہانکتے تھے، جہاں جب وہ جانور اکٹھے ہو جاتے، تو ان کا شکار کرنا آسان ہو جاتا تھا۔ کیا یہ انتخابات بھی ایک ہانکا نہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے جلسے، جلوس، ریلیاں، اور ان میں ڈھول ڈھمکا، شور و غُل، یہ وہی سماں ہے، جو ہانکے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اور اس سیاسی ہانکے کا مقصد کیا ہے؟ یہ کہ لوگ 11 مئی کو ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں، اور ان کا شکار کیا جا سکے۔ شکر ہے کہ وہ قانون سازی کہیں بیچ میں ہی رہ گئی، جس کے مطابق ہر ووٹر کے لیے ووٹ ڈالنا لازمی ہوتا۔ ورنہ اس ہانکے کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہو جاتی۔
ہانکے کے ساتھ، مجھے خالد احمد (1943ـ2013) بھی یاد آ رہے ہیں۔ وہ بہت اچھے شاعر تھے، ابھی اس مارچ میں ملکِ عدم کو سدھار گئے۔ ان کی ایک نظم ستمبر- دسمبر 1992 کے ”فنون“ میں چھپی تھی۔ اس کا عنوان بھی ”ہانکا“ تھا۔ نظم پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیاسی ہانکے کے بارے میں ہی لکھی گئی ہے:
کہیں ہانکا لگایا جا رہا ہے
کہیں گھنگھرو، کہیں خالی کنستر بج رہے ہیں
کہیں خندق، کہیں خس پوش کھڈ ہے
کہیں پنجرے، کہیں پھندے چھُپے ہیں
کہیں نعرہ، کہیں بارود داغا جارہا ہے
یہ کس کو مل کے گھیرا جارہا ہے
تمنائیں کبھی پوری نہیں ہوتیں
تنے کے ساتھ بکروٹا بندھا ہے
درختوں پر مچانیں کس نے باندھیں
مچانوں پر شکاری کون لایا
درختوں پر شکاری منتظر ہیں
تنوں کے ساتھ بکروٹے بندھے ہیں
شکاری کے تعاقب میں شکاری آ رہا ہے
یہ کس کو مِل کے گھیرا جا رہا ہے
ہمیں کس سمت ہانکا جا رہا ہے
ابھی ہم کو تھکایا جا رہا ہے
ہمارا تن، بہت آہستگی کے ساتھ ڈھایا جا رہا ہے
ابھی ہم کو تھکایا جا رہا ہے!
[یہ کالم 2 مئی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں