کیا آپ نے کبھی ایسا کوئی منظر دیکھا ہے کہ نغمۂ شادی کے ساتھ ساتھ نغمۂ غم بھی گونج رہا ہو! یا شادی خانہ آبادی کا کوئی ایسا منظر کہ جس میں عروسی بندھن میں بندھنے والوں کے بجائے، مبارک سلامت کسی اور کو دی جا رہی ہو! پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو کچھ نہیں ہوا، وہ آج ہونے جا رہا ہے۔ ایک منتخب سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ پہلے یہ مدت پوری کیوں نہیں ہو پاتی تھی، یہ سوال بھی غور طلب ہے؛ اوراتنا ہی اس سوال کا جواب بھی غور طلب ہے۔ اگر پہلے سیاسی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پاتی تھیں، تو اس کی اصل ذمے داری بھی ان کے سر آتی تھی۔ مگر آج یہ چیز کچھ مختلف انداز میں جلوہ گر ہو رہی ہے۔ اگر آج ایک منتخب سیاسی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے، تو اس کا سہرا، اس حکومت کے بجائے، سیاسی جماعتوں کے سر بندھتا ہے۔ یعنی اس میں مغالطہ یہ ہے کہ یہ سہرا دلہن اور دلہا کے سر نہیں بندھ رہا۔ بلکہ باراتیوں میں سے کسی اور کے سر بندھ رہا ہے۔ کیسی بارات ہے یہ!
گزرے پانچ برس پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ پیپلز پارٹی نے ایک اتحاد بنایا اور اپنی حکومت قائم کی۔ اس اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی، جمیعتِ علمائے اسلام (ف)، اور متحدہ قومی موومینٹ شامل تھیں۔ شروع میں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ پھر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بحالی کے مسئلے پر مسلم لیگ (ن) نے اس اتحادی حکومت سے علاحدگی اختیار کر لی۔ تب سے اب تک، صرف عوامی نیشنل پارٹی ایک ایسی جماعت ہے، جو پیپلز پارٹی کے لیے پوری آئینی مدت کی اتحادی ثابت ہوئی۔ جہاں تک ایم- کیو- ایم کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسی اتحادی جماعت کے طور پر سامنے آئی، جس کے بار ے میں یہ سوال پورے پانچ سال موجود رہا کہ یہ پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے یا نہیں۔ یہ صرف آصف علی زرداری کو سمجھ آ سکا کہ کب ایم- کیو- ایم اتحادی تھی اور کب نہیں۔ اس کا کریڈٹ ان کو ملنا چاہیے کہ اگرایک دن اخبار بتاتے تھے کہ ایم- کیو- ایم مرکزی حکومت سے علاحدہ ہو گئی ہے، تو دوسرے دن پتہ چلتا تھا کہ علاحدگی کا فیصلہ بدل دیا گیا۔
ذرا صوبوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں کہ وہاں کس کی حکومت رہی اور کیسی رہی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اور بڑی اتحادی پارٹی کے طور پر ایم- کیو- ایم اس حکومت میں شامل تھی۔ یہاں بھی وہی کھیل کھیلا جاتا رہا، جو وفاق میں ہو رہا تھا۔ یعنی چھُپن چھُپائی کا کھیل: ایک چھُپتا ہے اور دوسرا اسے تلاش کرتا ہے۔ تلاش کرنے والا جیت جاتا ہے، اور جسے تلاش کر لیاجائے، وہ ہار جاتا ہے۔ مگر پیپلزپارٹی اور ایم- کیو- ایم کی سیاسی چھُپن چھُپائی کے قاعدے یکسر مختلف تھے۔ ایک چھُپ جاتا تھا اور دوسرا اسے ڈھونڈتا تھا۔ جو ڈھونڈ لیتا، وہ ہار جاتا، اور جسے تلاش کر لیا جاتا، وہ جیت جاتا۔ اس کھیل میں پیپلز پارٹی ہمیشہ ہاری ہوئی پارٹی بنی رہی۔ اسے ہارنے کا یہ فائدہ تھا کہ کھیل جاری رہا، وگرنہ کھیل ختم ہو جاتا۔ ایم- کیو- ایم، اس کھیل سے فائدے ہی فائدے میں رہی۔ یہ چھُپنے سے پہلے بتا جو دیتی تھی کہ میں کہاں کس دروازے کے پیچھے چھُپوں گی۔ یوں، یہ جو چاہتی اسے مل جاتا۔ یوں ”کھیل ختم پیسہ ہضم“ نہ ہوا۔ اور یہ جو ایم- کیو- ایم نے عین وقت پر حکومت چھوڑ دی تو یہ بات اسی کھیل کا حصہ معلوم ہوتی ہے، تا کہ چھُپن چھُپائی چلتی رہے۔ سو، کراچی میں عام شہریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھ بند کر کے، یہاں مبارک سلامت دونوں کا حق بنتی ہے۔
بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ پوری اسیمبلی حکومت اور کابینہ میں جو شامل تھیں۔ حزبِ اختلاف صرف ایک رکن پر مشتمل تھی۔ حکومت تو کامیاب ہی کامیاب رہی۔ پر یہاں کے حالات یہاں کے منتخب نمائندے بھی نہ سمجھ سکے، نہ سنوار سکے۔ وہ سب مسئلے کا حصہ تھے، حل کا حصہ نہیں تھے۔ سو، حالات بد سے بد تر ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ خود پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کو اس صوبائی حکومت کو ختم کرنا اور یہاں گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ اس حکومت کا اختتام بھی کچھ اسی طرح ہو رہا ہے۔ گورنرراج کے بعد حکومت بحال ہو رہی ہے، لیکن یہ حکومت نہ ہونے جیسی ہے۔ یہاں مبارک سلامت کا کوئی جواز نہیں۔ خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی کی حکومت نہ بنی۔ یہاں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں یہ بڑے اتحادی کے طور پر شامل رہی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان چھوٹے موٹے مسائل کھڑے ہوتے رہے، لیکن بات جدائی تک نہیں پہنچی، اور پانچ سال اکٹھے بیت گئے۔ دونوں مبارک سلامت کی حق دار ہیں۔
اب ذرا صوبہ پنجاب کا تذکرہ ہو جائے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کی بڑی اتحادی جماعت کی حیثیت سے حکومت میں شامل رہی۔ آخری تجزیے کے مطابق یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے خو ب نبھائی۔ جب مسلم لیگ (ن) ،عدلیہ کی بحالی کے مسئلے پر وفاقی حکومت سے علاحدہ ہوئی، تو یوں لگتا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت سے اب علاحدہ ہوئی کہ تب علاحدہ ہوئی۔ کئی مواقعے پر ایسا امکان ضرور پیدا ہوا، لیکن جدائی عمل میں نہ آ سکی۔ یہاں مبارک سلامت دونوں کو دی جانی چاہیے، گو کہ اس مبارک سلامت کا بڑا حصہ مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آتا ہے۔
اب آتے ہیں اس بڑے تاریخی ”مُک مُکا“ کے فلسفے کی طرف، جس کا ڈھنڈورا، تحریکِ انصاف پورے پانچ سال پیٹتی رہی۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے دوسرے بڑے بڑے رہنما، جو پہلے دوسری سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے رہنما تھے، پورے پانچ سال اس اضطراب میں رہے کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر کیوں نہیں آتی۔ یہ صدر زرداری کی حکومت کو ٹھکانے لگانے کے لیے لانگ مارچ اور فسادات برپا کیوں نہیں کرتی۔ جب مسلم لیگ (ن) نے ایسا نہ کیا، تو اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ جرم میں شریک ہے۔ یعنی ملک میں جو کرپشن ہورہی ہے، یہ دونوں اس جرم میں ساز باز کیے ہوئے ہیں۔ ان دونوں نے باری لگائی ہوئی ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی خامیوں، غلطیوں، اور کرپشن پر پردہ ڈال رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف اور اس کے لیڈروں نے اسے ”مُک مُکا کے فلسفے“ کا نام دیا۔ اور اس بنیاد پر دونوں جماعتوں کو مسترد کیا۔ کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ دونوں کرپٹ جماعتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں، اور ”عوام“ کو لوٹ رہی ہیں، لہٰذا، ”عوام“ کو ان کے ”جھانسے“ سے نکل کر ہمارے ”جھانسے“ میں آنا چاہیے۔ یعنی تحریکِ انصاف کو بھی مُک مُکا کے نظام کا حصہ بنایا جائے۔
دوسرے الفاظ میں تحریکِ انصاف یہ چاہتی ہے کہ مبارک سلامت نہ تو پیپلز پارٹی کا حق ہے اور نہ مسلم لیگ (ن) کا۔ کیونکہ اگر حکومت نے آئینی مدت پوری کی ہے تو یہ غلط ہوا۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ ان دونوں کرپٹ جماعتوں میں کوئی ساز باز، یعنی کوئی مُک مُکا نہ ہو پاتا، اور مسلم لیگ (ن) بہر صورت ایسا ”پھپھے کٹنی“ کردار ادا کرتی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو جاتی۔ ایسا نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ان دونوں کے مابین ملی بھگت تھی، اور اس وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت آئینی مدت پور ی کر پائی۔ یوں تحریکِ انصاف کی منطق ان دونوں میں سے کسی کو بھی مبارک سلامت کا حق دار نہیں سمجھتی۔
اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت وفاق میں پانچ سال کی آئینی مدت پوری کر پائی ہے تو اس کا کریڈٹ اصل میں مسلم لیگ (ن) کو جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف بھی یہی کہنا چاہتی ہے، مگر اس کا انداز مختلف ہے۔ اور جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا کہ نغمۂ شادی اور نغمۂ غم دونوں بیک وقت گونج رہے ہیں تو اس سے یہی مراد ہے کہ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاسی منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے؛ پر غم اس بات کا ہے کہ یہ ایک ایسی حکومت ثابت ہوئی کہ جسے اگر پہلے والا پاکستان موجود ہوتا تو کبھی کا فارغ کر دیا گیا ہوتا۔ یاد کیجیے کتنی حکومتیں کرپشن، اور اختیارات کے ناجائز اور غلط استعمال پر برطرف کی گئیں۔ موجودہ حکومت اس معیار پر سو فیصد پوری اترتی تھی۔ مگر ایسا نہ ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہ چاہتی تھی کہ موجودہ حکومت جیسی بھی ہے، اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے، اور اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) نے نہ کسی کا ساتھ دیا، نہ کسی کی بات پر کان دھرا۔ سو، جیسا کہ شروع میں کہا گیا، پیپلز پارٹی کی اس حکومت کے آئینی مدت پوری کرنے کی مبارک سلامت، پیپلز پارٹی، یعنی دلہا دلہن کونہیں، بلکہ مسلم لیگ (ن)، یعنی باراتیوں کو ملنی چاہیے، جنھوں نے شادی اور بارات کو خراب نہیں کیا!
[یہ کالم 16 مارچ کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں