تیسری دنیا کے ممالک کے ننانوے فی صد مسائل کا سبب قانون کی حکمرانی اور خود کارحکومتی اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ پاکستان غالباً اس کی نمایاں ترین مثال ہے۔ یہاں حکمرانی، یعنی گورنینس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ شہریوں کو منتخب نمائندوں، پارٹی کے عہدیداروں اور سرکاری اہلکاروں کا محتاج اور دست نگر بنا دیا جائے۔ ان میں قومی اسیمبلی، صوبائی اسیمبلیوں اور سینیٹ کے بلا واسطہ اور بالواسطہ طورپر منتخب ہونے والے دونوں طرح کے ارکان کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت، اس کی اتحادی جماعتوں کے وزیر، مشیر، اور اسی طرح کے دوسرے طفیلیے شامل ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ سرکاری محکمے اور سرکاری اہلکار، ان کے ساتھ ملوث ہو جاتے ہیں، اور یہ سب حکومت میں شامل اور حکومت کے ساتھ جڑی ہوئی جماعتوں کے عہدیداروں اور ان کے کارندوں کے ساتھ مل کر ان سرکاری خدمات کو، جو شہریوں کو بلاتاخیر، بلا امتیاز، بلاقیمت، اور بغیر کسی سفارش کے دستیاب ہونی چاہیئیں، منہ مانگی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی شہری نے تھانے میں ایف- آئی- آر درج کروانی ہے تو اصولاً اور قانوناً یہ کام خود بخود ہو جانا چاہیے۔ یعنی بلا تاخیر، بلا امتیاز، بلا قیمت، اور بغیر کسی سفارش کے۔ کیا انصاف کی فراہمی کا نظام اسی غرض سے تشکیل نہیں دیا گیا۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے کہ اسے بہر صورت ایف- آئی- آر درج کروانی ہے تو اسے کوئی بااثر شخصیت تلاش کرنی پڑے گی۔ یا اگر کسی کے خلاف جھوٹی ایف ـ آئی ـ آر درج کروا دی گئی ہے۔ یا بد قسمتی سے کوئی کسی پولیس والے کے ساتھ کسی تنازعے کا شکار ہو گیا ہے۔ یا کسی کو عدالت میں کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا گیا ہے۔ تو ان سب بدقسمت پاکستانی شہریوں کو کسی ایسی شخصیت کا سہارا ڈھونڈنا ہو گا، جو اسے اس مصیبت سے نجات دلائے۔
اسی طرح، اگر پراپرٹی ٹیکس کے محکمے نے کسی پر من مانا ٹیکس لاگو کر دیا ہے۔ یا کسی کا بجلی یا گیس کا بل کمپیوٹر یا انسانی کمپیوٹر یعنی میٹر ریڈر کی کوتاہی کی وجہ سے بہت بڑھا چڑھا کر بھیج دیا گیا ہے۔ یا کسی کا بجلی یا گیس کا میٹر بل کی ’ادائیگی‘ (یعنی ادائیگی کی گئی تھی پر اس کا اندراج محکمے تک نہیں پہنچا!) کے باوجود کاٹ دیا گیا ہے۔ یا کسی کا شناختی کارڈ گُم ہو گیا ہے؛ اسے اس کی ایف ـ آئی ـ آر درج کروانی ہے؛ پھر نیا شناختی کارڈ بنوانا ہے۔ شناختی کارڈ کے لیے کوائف کی تصدیق کروانی ہے۔ یا کسی نے پاسپورٹ بنوانا ہے، یا اس کی تجدید کروانی ہے۔ یا کسی کاروباری کو متعدد سرکاری محکموں کے ”بااختیار“ کارندے پریشان کر رہے ہیں تا کہ انھیں ”بھتہ“ دیا جائے۔ یا کوئی غنڈہ کسی شہری کو تنگ کر رہا ہے اور” ٹیکس“ مانگ رہا ہے، اور اگر وہ پولیس یا کسی منتخب نمائندے کا پالتو کارکن نہیں ہے، تو اس شہری کو اس غنڈے سے تحفظ درکار ہے۔ ان عام اور روٹین کے کاموں کی تکمیل کے ضمن میں سرکاری اہلکار اپنے فرض کی ادائیگی کے بجائے ضرورت مند شہری کو تنگ کر رہے ہیں۔ یا کوئی ایسی پیچیدگی پیدا کرر ہے ہیں کہ اس کا کوئی حل نہیں نکل پا رہا۔ تو اس طرح کے مشکل مواقع پر یہ بااثر شخصیات اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہ اگر پاکستان کے عام شہریوں کو اپنی جان کی حفاظت کے لالے پڑجائیں، یا اپنے مال وجائیداد کے تحفظ کا خوف یا نقصان لاحق ہو جائے، یا انھیں انصاف درکار ہو؛ یا خود حکومت کی طرف سے کھڑے کیے گئے صحیح غلط تقاضوں کی تکمیل کے ضمن میں حکومت کی طرف سے مہیا کی جانے والی خدمات کے حصول میں کھڑی کی جانے والی مشکلات سے نبٹنا پڑ جائے، اس کے لیے بہر صورت کسی نہ کسی بااثر شخصیت کی مدد حاصل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
یہ بااثر شخصیات کون ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں با اثر شخصیت کی یہ اصطلاح حکومت بدلنے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ یہ بااثر شخصیت، حکومت، یا سرکار کی کسی نہ کسی سطح سے وابستہ کوئی شخص ہو سکتا ہے۔ ایک طرف، یہ کوئی ایم این اے ، ایم پی اے، سینیٹر، وزیر، مشیر، یا ان کا کوئی فرنٹ مین، کوئی کارندہ، یا ان کا کوئی عزیز ہو سکتا ہے۔ یا پھر یہ شخصیت حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا کوئی عہدیداربھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف، کسی سرکاری محکمے کا کوئی اعلیٰ افسر، یا اس کا کوئی عزیز یا دوست یا فرنٹ مین یا کارندہ بھی اس شخصیت کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کچھ برس پہلے ایک برسرِ اقتدار سیاسی پارٹی نے بااثر شخصیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے اہم سیاسی کارکنوں کو پارٹی کے ’گرین کارڈ‘ جاری کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ گو کہ اس پر عمل نہ ہو سکا، تاہم، حقیقتاً اس پر مستقلاً عمل ہورہا ہے۔
ساٹھ پینسٹھ سال میں پاکستان کی ”جمہوریت“ کا حاصلِ حصول یہی ہے کہ اس نے پاکستان کے عام شہریوں کو حکمران اور حکومتی اشرافیہ، یعنی ریاستی اشرافیہ کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس کا سہرا کسی ایک سیاسی پارٹی کے سر نہیں، بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں اور ان تمام پارٹیوں کے سر زیادہ بندھتا ہے، جو اقتدار میں رہی ہیں۔ ان حکومتوں میں، سیاسی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوجی آمروں کی حکومتیں اوران فوجی حکومتوں کے زیرِ سایہ بننے اور چلنے والی سیاسی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ان سب کی سب، نااہل حکومتوں نے شہریوں کو سوچ سمجھ کر، بالارادہ، بلکہ منصوبہ بند طریقے سے سیاست اور حکومت کا محتاج بنایا۔ یہ محض ان کی نااہلی کا معاملہ نہیں۔ یعنی یہ نہیں کہ انھوں نے نااہلی کا مظاہر ہ کیا۔ بلکہ انھوں نے مجرمانہ طورپر ریاست، سیاست اور حکومت کو اپنے اشرافی مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔
یہ نااہلی اصل میں ایک مجرم کی نااہلی ہے۔ اور یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ، غیر حاضر حکومت کا رخ، اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یعنی یہ نااہلی، ان جرائم پیشہ افراد کی سیاست کا دوسرا نام ہے، جنھوں نے ریاست اور حکومت کو مجرموں اور جرائم پیشہ افراد کا گھر بنا دیا۔ جبکہ یہ ریاست، حکومت اور پھر سیاست پاکستان کے شہریوں کی جان و مال اور ان کی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے قائم ہوئی تھی۔ جرائم پیشہ افراد کے لیے نہیں۔ اس کالم کے عنوان میں ”غیر حاضر حکومت“ کی جو اصطلاح استعمال ہوئی ہے، اس کا مفہوم یہی ہے کہ پاکستان میں ایک ذمے دار حکومت ہمیشہ غیر حاضر رہی۔ یہاں جو بھی جیسی بھی حکومتیں برسرِ اقتدار آئیں، انھوں نے ”سوچی سمجھی نااہلی“ کا مظاہر ہ کرنے کے ساتھ ساتھ، جرم اور جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کو پناہ اور تحفظ دینا اپنا شعار بنائے رکھا۔ بلکہ عملاً یہ ہوا کہ خود حکومت، قانون اور آئین کی سب سے بڑی دشمن کے طور پر سامنے آئی۔ اسی چیز نے ریاستی اشرافیہ کو جنم دیا اور اس کے مفادات کو تحفظ بھی۔
اس سے دو بڑے نتائج پیدا ہوئے۔ ایک طرف، عام شہری، حکومت سے وابستہ جرائم پیشہ نمائندوں اورسرکاری اہلکاروں کے محتاج بن گئے۔ دوسری طرف، حکومت نے اپنے فرائض کی بجا آوری کے بجائے، یعنی شہریوں کی جان ومال اور ان کی آزادیوں اور حقوق کی حفاظت کے بجائے، ان لوگوں کی پرورش، سرپرستی، اور دفاع کا کام پکڑ لیا، جو سراسر قانون دشمن، جرائم پیشہ اور بنیادی طور پر کرپٹ اور غاصبانہ فطرت رکھنے والے تھے۔ بلکہ جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں، انھوں نے ریاست، سیاست اور حکومت میں جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ موجودہ حکومت بھی نہ صرف ایسی حکومت کا ایک کھلا نمونہ ہے، بلکہ اس کی نمایاں ترین مثال بھی ہے۔
بلوچستان میں جو کچھ ہوا، ذرا اس پر نظر ڈالیے۔ مبینہ طور پر صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت وہاں کی اسیمبلی میں ایسے ارکان موجود بتائے جاتے ہیں، جو خود جرائم میں ملوث ہیں، اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اسی طرح، خود وفاقی حکومت اور اس کے اعلیٰ ترین عہدیدار وائٹ کالر جرائم میں ملوث کہے جاتے ہیں۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھاریٹی کے سابق سربراہ توقیر صادق کا کیس تو دیگ کے ایک ایسے چاول کا درجہ رکھتا ہے، جو پوری دیگ کے ذائقے کا حال بتاتا ہے۔ ان کی تقرری کیسے ہوئی؛ کیوں ہوئی؛ انھوں نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیسے کیا؛ پھر ان کی برطرفی کیوں اور کیسے ہوئی؛ ان پر مقدمات کیونکر بنے؛ ان کی گرفتاری کے احکامات کیونکر جاری ہوئے؛ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل مختلف اہلکاروں نے انھیں کس طرح گرفتاری سے بچایا؛ انھیں بچانے والوں میں مبینہ طور پر سینیٹ سے لے کر قومی اسیمبلی کے ارکان تک کے نام کیوں شامل ہیں؛ پھر انھیں ملک سے باہر کس طرح بھجوایا گیا؛ غیر ملک میں جانے والی ایک ٹیم انھیں گرفتار کیوں نہ کر سکی۔ کیا ان چیزوں سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ نااہل اور غیر حاضر حکومتیں اصل میں شہریوں کی دشمن اور جرائم پیشہ افراد کی دوست ثابت ہوئی ہیں! انھوں نے نہ صرف شہریوں کے مینڈیٹ سے غداری کی ہے، بلکہ ان کے ٹیکس کے پیسے پر جرائم پیشہ ریاست، جرائم پیشہ حکومت اورجرائم پیشہ سیاست کو فروغ بھی دیا ہے!
[یہ کالم 29 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں