پاکستان کی ریاست سونے کی کان ہے۔ اس میں سے سونا نکالنے اور لوٹنے کے لیے ریاست کے ساتھ کسی نہ کسی حیثیت میں وابستہ ہونا ضروری ہے۔ خواہ کوئی فوج میں اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو سکے، بیوروکریسی میں شامل ہو جائے، یا سیاست دان بن بیٹھے۔ یا پھر ان تینوں قسم کے خواص سے کوئی رابطہ استوار کرے اور استوار رکھے۔ یوں پاکستانی ریاست کو لوٹنا ’’قانونی‘‘ کے زمرے میں شمار ہو جاتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ میں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ پاکستان کی ریاست پر مختلف طبقات کے اتحاد نے قبضہ جما لیا ہے۔ ان طبقات کو ایک نئی اصطلاح سے سمجھنا ضروری ہے: یعنی ریاستی اشرافیہ۔
سو یہ یہی ریاستی اشرافیہ ہے، جو پاکستان کی ریاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور یوں پاکستان کے شہریوں کو لوٹ رہی ہے۔
ریاستی اشرافیہ ایک بیل کی طرح ہے، جو پاکستان کی ریاست کے درخت ساتھ چپکی ہوئی ہے، اور پاکستان کے شہریوں کا خون چوس رہی ہے۔
ویسے تو روزانہ اخبارات میں ریاستی اشرافیہ کی قانونی اور غیر قانونی چوریوں اور ڈاکوں کی کہانیاں (’’حقائق‘‘) چھپتی رہتی ہیں، تاہم، کبھی کبھی کوئی کہانی اتنی ’’عریاں‘‘ ہوتی ہے اور سیاست دانوں کی بے ضمیری اور ڈھٹائی کو اتنی بے دردی سے عیاں کرتی ہے کہ میں اس کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسی ہی ایک کہاںی آج کے اخبارات کی زینت بنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں