ہفتہ، 7 ستمبر، 2013

طاہرالقادری سوانگ: حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کا آدھا سچ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اگوائی میں پارلیمان کے اندراور پارلیمان سے باہر موجود اکثر سیاسی جماعتیں ہر قسم کے غیر آئینی اقدام اور حکومت کو لاحق غیر آئینی خطرات کے خلاف اکٹھی ہوگئی ہیں۔ جیسا کہ پہلے ان جماعتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ کسی حکومت کو گرانے کے لیے یہ ہر اچھا بُرا، آئینی غیر آئینی قدم اٹھانے سے قطعاً نہیں کتراتی تھیں، اس کے برعکس اب ان جماعتوں میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ گو کہ موجودہ حکومت پرلے درجے کی بدعنوان اورنااہل ہے، لیکن اسے اپنا آئینی وقت پورا کرنا چاہیے، اور آئندہ حکومت انتخابات کے ذریعے وجود میں آنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بالآخر آئین پسندی کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک مثبت علامت ہے کہ طاہرالقادری کے پیروکاروں اور حامیوں کے علاوہ، پاکستان کے دوسرے شہریوں نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔ اسلام آباد پہنچ کر بھی ان کا دھرنا ”ملین مارچ“ نہیں بن سکا۔ یعنی شہریوں کی اکثریت، حکومت سے نالاں ہونے کے باوجود طاہرالقادری یا ان جیسے کسی مہم جو کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں۔ ایک اور خوشگوار علامت یہ ہے کہ بیشتر سیاسی رائے عامہ اس بات پر متفق ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ان مسائل کو، جن کا پاکستانی شہری شکار ہیں، کرشماتی انداز میں حل نہیں کر سکتی۔ مزید یہ کہ اگر کوئی پارٹی یا رہنما، اس قسم کے سبز باغ دکھاتا ہے، جیسا کہ طاہرالقادری کی لچھے دار گفتگو سے عیاں ہے، تو اس پر یقین کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔ اسی طرح، حکومت کی طرف سے وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے طاہرالقادری کے غیر آئینی مطالبات پر غور کرنے سے نہ صرف معذوری ظاہر کی ہے، بلکہ آئین کی پاسداری کا یقین بھی دلایا ہے۔ اسی پر بس نہیں، حکومت کی طرف سے انتخابات کی تاریخ (4، 5 یا 6 مئی) کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ اور اب تو طاہرالقادری کا دھرنا بھی بے نیل و مرام اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔

تاہم، چکی کے دو پاٹن کے بیچ پاکستان کے عام شہریوں کے لیے ”سب کچھ اچھا نہیں۔“ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 16 جنوری کو لاہور میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر جو سیاست دان جمع تھے، ان میں سے اکثر چہرے ایسے ہیں، جنھیں پاکستانی شہری پہلے بھگت چکے ہیں، اور ان کی کرپشن، اقربا پروری، اور قانون دشمنی سے اچھی طر ح واقف بھی ہیں۔ ان میں سے کئی صورتیں تو ایسی ہیں، جنھیں دیکھ کر کراہت آتی ہے کہ یہ گِرگٹ، اور برساتی مینڈک پھر باہر نکل آئے ہیں، اور” آئین آئین“ ٹرا رہے ہیں۔ یہی چیز تھی، جسے طاہرالقادری نے بھی بھانپا، اور اس کا فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے ”حزبِ اختلاف“ کے ان سیاست دانوں کی پریس سے گفتگو کے فوراً بعد ہی ڈی چوک میں اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ان کے دھرنے کے خلاف سب کے سب لٹیرے اکٹھے ہو گئے ہیں، اوریہ سب چور حکومت کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں۔ کیا انھوں نے غلط کہا۔ بالکل نہیں۔ یہی تو سبب ہے کہ طاہر القادری کے پیروکار اور پاکستان کے دوسرے شہری ان کی تشخیص کو قدرے درست سمجھتے ہیں اور انھوں نے اسی چیز کا فائدہ اٹھایا۔ جب طاہرالقادری کہتے ہیں کہ پارلیمان اور صوبائی اسیمبلیوں میں بیٹھے نمائندے ٹیکس چور ہیں تو وہ غلط نہیں کہتے۔ تاہم، طاہر القادری، جو علاج تجویز کرتے ہیں، وہ درست نہیں۔ بلکہ مرض کو دوچند اور شدید کر دے گا۔

اس بحث سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ طاہرالقادری کی تشخیص ایسی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن وہ جو علاج اور پرہیز بتاتے ہیں، وہ علاج کے مسلمہ اصولوں کے خلاف اور مہم جویانہ ہے۔ پاکستان میں متعدد فوجی ڈِکٹیٹر ایسے علاج پہلے آزما چکے ہیں۔ خود سیاست دان اس طرح کے نسخوں پر انحصار کر تے رہے ہیں۔ مگر ہوا یہ ہے کہ مریض صحت یا ب ہونے کے بجائے، مزید لاغر اور ناتواں ہوتا گیا۔ ایسے میں طاہرالقادری کے نسخے پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ مراد یہ کہ پہلے آزمائے گئے علاج بھی غیر آئینی تھے، اور انھوں نے مریض کو مزید ناتواں بنا دیا۔ یہی سبق ہے، جس کی رو سے اوپر یہ کہا گیا کہ پاکستان کے سیاست دان اور شہری سیاسی طور پر قدرے سمجھ دار ہو گئے ہیں۔ اب وہ کسی بھی قسم کی غیر آئینی مہم جوئی پر یقین کرنے سے محترز ہیں۔ یعنی پاکستان میں آئین پسندی پر ایک مجموعی اتفاقِ رائے تشکیل پا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیاست کے ان خوفناک چہروں کو، جو پہلے ٹی وی چینلز پر سجے اور پھر اخبارات میں چھپے، گوارا کیا جا سکتا ہے۔ مرا د یہ کہ طاہرالقادری کھیل کے قواعد کے خلاف کھیلنے کی بات کر رہے تھے، اور یہ چہرے کم از کم اس چیز پر متفق اور اکٹھے ہیں کہ کھیل کے جو قواعد طے ہیں، کھیل ان کے مطابق کھیلا جانا چاہیے۔ مراد یہ کہ طاہرالقادری آئین سے انحراف ، اور پارلیمان کے اندر اور باہر موجود حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیاں اور خود حکومت میں موجود پارٹیاں آئین کی پاسداری کی بات کر رہی ہیں۔

یہاں تک تو بات صاف ہے، واضح ہے۔ لیکن یہ صرف آدھا سچ ہے۔ پارلیمان میں موجود حزبِ اختلاف کی جماعتیں، جیسے کہ مسلم لیگ (ن)، جمعیتِ علمائے اسلام (ف)، اور پارلیمان سے باہر ”حزبِ اختلاف“ کی جماعتیں، جیسے کہ جماعتِ اسلامی، یہ سب آئین کی پاسداری پر متفق اور مجتمع ہیں۔ مراد یہ کہ یہ سب علاج کی حد تک اتفاقِ رائے رکھتی ہیں۔ یہ سب جماعتیں اور سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانیوں کو درپیش مسائل کا علاج، آئین اور قانون کی پاسداری میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ طاہرالقادری کے علاج کو مستر د کر رہے ہیں۔ غیر آئینی مہم جوئی کے کسی بھی امکان اور خطرے کو دفع کر رہے ہیں۔ یہ آدھا سچ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ طاہرالقادری نے جو تشخیص دی ہے؛ پاکستان کی سیاست کو جو مرض لاحق ہیں، پاکستان کے سیاست دانوں کو جو ”نشے“ لگے ہوئے ہیں، ان کی جو نشان دہی کی ہے، کیا ان سیاسی پارٹیوں نے کل کے اجتماع میں اس پر بھی کوئی توجہ دی۔ کیا حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں، جو کئی دن سے سر جوڑے بیٹھی ہیں، اور طاہرالقادری کے دھرنے سے پریشان ہیں، انھیں طاہرالقادری نے جو تشخیص دی ہے، اس پر بھی گفتگو کرنے کا وقت ملا۔ یہ وہ آدھا سچ ہے، جو پہلے آدھے سچ سے زیادہ اہم ہے۔ کیا حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر موجود سیاسی رہنماؤں نے اس پر بھی غور کیا۔ مختصراً یہ کہ کیا انھوں نے آپس میں یہ عہد کیا کہ وہ خود ٹیکس باقاعدگی سے دیں گے، قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں گے، آئین کی پاسداری کریں گے، اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے، شہریوں کے ٹیکس کے پیسے کو کسی لاوارث کی دولت سمجھ کر لوٹیں گے نہیں، اقربا پروری نہیں کریں گے۔ اور اسی طرح کی دوسری سینکڑوں اور ہزاروں بد عنوانیاں، جن کے وہ ہمیشہ مرتکب ہو تے ہیں، وہ ان سے احتراز کریں گے۔ یقینا ان کے اجتماع میں ایسا نہیں ہوا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اجتماع صرف آدھے سچ پر متفق اور اکٹھا ہوا تھا۔ اس نے دوسرے آدھے سچ کو نظرانداز کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نیتوں میں فتور موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پرنظر رکھنی پڑے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر پہرہ دینا پڑے گا۔ اور انھیں ہر ہر قدم پر جواب دہ بنانا ہو گا۔ اوران سب باتوں کے ساتھ ساتھ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاست اور سوسائیٹی کو، جو بیماریاں اور مزمن مرض لاحق ہیں، اگر ان پر توجہ نہ دی گئی اور ان کا تسلی بخش علاج نہیں کیا گیا تو طاہرالقادری جیسے مہم جو پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس طرح پیدا ہونے والے مہم جو، غیر آئینی علاج بھی تجویز کرتے رہیں گے۔ سو، اس آدھے سچ پر پوری توجہ دینا اشد ضرور ی ہے!

[یہ کالم 19 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں