اتوار، 8 ستمبر، 2013

کیا ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ) بدل گئے ہیں؟

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب قانون کی حکمرانی کے لیے وکلا کی تحریک زوروں پر تھی۔ 9 مارچ 2007 کو طاقت کے ایک نمائندے کو قانون کے ایک نمائندے نے جو انکار کیا تھا، وہ پاکستان کے شہریوں کی اکثریت کے لبوں پر ٹھہر گیا تھا۔ بلکہ وہی انکار پاکستان میں قانون کی بالادستی کی تحریک میں ڈھل چکا تھا۔ اس انکار میں ایسی اخلاقی قوت پوشیدہ تھی کہ دہائیوں سے سوئے ہوئے ضمیر جاگ اٹھے تھے۔ ایسے ایسے کونوں کھدروں سے آئین اور قانون کی حکمرانی پر صاد کیا جا رہا تھا، جہاں اس سے قبل صرف فوجی آمریت کی ہمنوا ئی کی صدائیں بلند ہوا کرتی تھیں۔ بلکہ صاد کہنے والے یہ لوگ وہی تھے، جو فوجی آمریت کے لاؤ لشکر کی رونق ہوا کرتے تھے۔ یہ اس تحریک کی نہایت عظیم اخلاقی جیت تھی۔

پھر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا روشن دن بھی آیا۔ تاہم، ریاستی اشرافیہ نے جلد ہی پلٹ کر وار کیا، اور 3 نومبر 2007 کو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو معزول کر دیا گیا۔ ابھی پہلی تحریک کا عزم و جوش اور گرمیِ رفتار زندہ تھی۔ سو عدلیہ کی بحالی کی تحریک نے پھر زور پکڑ لیا۔ اسی اثنا میں، 3 نومبر 2008 کو انگریزی اخبار ”دا نیوز“ میں ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ) کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا: پاکستان کی اصل سِول جنگ۔ یہ اختصار اور جامعیت کا نمونہ تھا۔ یہ سوچ کر مزید حیرانی ہوتی تھی کہ فوجی جنگیں لڑنے والا ایک شخص، پاکستان کو لاحق مرض کی کیسی درست تشخیص کر رہا ہے۔ کچھ باتوں سے اختلاف کے باوجود، یہ مضمون پاکستان کی سوسائیٹی کو سمجھنے کے لیے فکری رہنمائی مہیا کرتا تھا۔ میں نے اس مضمو ن کو خوب پھیلایا۔ اس کی فوٹو کاپیاں کروا کے تقسیم کیں۔ ایڈمرل فصیح کی یہ تشخیص، جہاں تک پہنچائی جا سکتی تھی، میں نے پہنچائی۔ کوشش یہ تھی کہ پریشان خیالی ختم ہو اور پاکستان کو گھُن کی طرح کھانے والے اس مرض کا علاج کیا جا سکے۔

آئیے اس مضمون پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ایڈمرل فصیح لکھتے ہیں: پاکستان میں قبضہ یا تصرف، طرزِ حیات بن چکا ہے۔ سب سے اوپر سیاست دان ہیں، جنھوں نے اپنی سیاسی پارٹیوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ بوناپارٹِسٹ جینرل، جو کبھی آرمی چیف کی تقرری کیا کرتے تھے، سروس پر اور پھر ملک پر قبضہ جماتے ہیں۔ بیوروکریٹ، جن کی نوکری کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کاروباری لوگ، جو کارٹیل بناتے ہیں۔ اور کرائے دار، جو کرایہ ادا نہیں کرتے۔ پبلک اور پرائیویٹ، دونوں سیکٹر میں اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ قبضہ ذہنیت پوری قوم کو سماجی زینے کی نچلی سطح تک تقسیم کیے ہوئے ہے، جہاں غریب لوگ ایسی زمین پر قابض ہیں، جو ان کی ملکیت نہیں، اور وہ ملکیتی حقوق چاہتے ہیں۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں، جو رضاکارانہ طور پر قانون کی پابندی کرتے ہیں، اور ایسے بھی، جو کھلے طور پر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہاں قانون کی عملداری کمزور ہے۔

ایڈمرل کہتے ہیں کہ اصل سِول جنگ ان لوگوں کے درمیان ہے، جو انصاف اور قانون کی عملداری چاہتے ہیں، اور دوسرے وہ، جو اس کی عدم موجودگی میں پھلتے پھولتے ہیں۔ یہ جنگ امیر اور غریب کی جنگ نہیں۔ یہ جنگ مذہبی اور سیکولر کی جنگ نہیں۔ یہ قانون کی پابندی کرنے والوں کی جنگ ہے، ان کے خلاف جوقبضہ ذہنیت کے حامل ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ بادشاہت کے بعد کے زمانے میں حکمرانی کے ساتھ جو مسئلہ درپیش ہے، وہ ہے ریاستی طاقت اور کارپوریٹ طاقت کے ادغام کا، یعنی ان دونوں کا مِل جانا۔ ریاستی طاقت اور کارپوریٹ طاقت کے حامل لوگ ایسے سیاست دانوں کے انتخاب پر پیسہ لگاتے ہیں، جو ان کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ کلاسیکی فاش ازم ہے۔ فاش ازم کی یہ طاقت ان لوگوں کے خلاف استعمال کی جاتی ہے، جو حکومتی طاقت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ پاکستان کی سوسائیٹی اور غیر فاشسِٹ ملکوں کی سوسائیٹی میں یہ فرق ہے کہ پاکستانیوں میں بے حسی نے گھر کر لیا ہے، اور وہ اسے اپنا مقدر سمجھنے لگے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بڑھتی ہوئی آگہی اور داخلی لڑائی اپنا وجود رکھتی ہے، جو ریاستی مشینری پر روک لگاتی ہے۔ دوسرے ممالک میں لوگ اپنے مُلک کی ملکیت کے لیے لڑتے ہیں۔ لیکن اب پاکستان میں بھی، وکلا، اور پاکستان کے چیف جسٹس، عزت مآب جناب افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں آگہی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ہیں، جنھوں نے فاش ازم سے ٹکر لی ہے، اور لوگوں نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ ان جیسے دوسرے ججوں کا، بے حسی کی وجہ سے لوگو ں نے ساتھ نہیں دیا؛ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ لوگ یقین رکھتے تھے کہ فوجی حکمران اور عوام کے نمائندے ان کے مفادات کی دیکھ بھال کریں گے۔

ایڈمرل فصیح بتاتے ہیں کہ فاش ازم کا طریقہ یہ ہے کہ یہ انتظامیہ (ایگزیکٹو) کو مضبوط کرتا ہے؛ عدلیہ کو کمزور کرتا ہے؛ پارلیمینٹ کو بے اثر بناتا ہے؛ اور میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے، تاکہ اصل معاملے سے توجہ ہٹائی جا سکے؛ اصل معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ انتظامیہ کو مضبوط کرنے کے لیے یا تو مسلح قوتوں کو مطمئن رکھا جاتا ہے، یا ان کے ساتھ اتحاد کر لیا جاتا ہے؛ اور اس کے ساتھ ساتھ آئین کو مسخ کیا جاتا ہے۔ پارلیمینٹ ایک ربڑ سٹیمپ بن جاتی ہے، کیونکہ جو ارکان اتنظامیہ کا ساتھ دیتے ہیں، انھیں اپنے حلقوں میں فاشسِٹ اقدامات کی آزادی دی جاتی ہے۔ میڈیا کے مُغلوں کو مطمئن رکھا جاتا ہے، اور ان کے صحافیوں کو یا تو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یا خرید لیا جاتا ہے۔ عدلیہ کو کمزور کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیا جاتا ہے؛ اس کے انفراسڑکچر کو مدد مہیا نہیں کی جاتی؛ اور ججوں کی تقرریوں پر انتظامیہ اپنا مکمل کنٹرول قائم رکھتی ہے۔

پہلی تحریکِ آزادی میں خارجی غاصبوں سے آزادی حاصل کی گئی۔ داخلی غاصبوں، یعنی قبضہ ذہنیت کے حاملوں کے خلاف، دوسری تحریکِ آزادی میں فتح صرف اس وقت حاصل کی جا سکتی ہے، جب عدلیہ آزاد ہو جائے گی۔ ایسا صر ف پاکستان کے تمام لوگوں کی حمایت سے ممکن ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پاکستانیوں کے لیے باہر آنا اور 3 نومبر 2007 کی پوزیشن پر عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ یہی وہ عدلیہ ہے، جو انتظامیہ کو اپنی طاقت کا منبع سمجھنے کے بجائے، لوگوں کو اپنی طاقت کا سرچشمہ سمجھے گی۔ یہی وہ عدلیہ ہے، جو عدلیہ کی آزادی کو قائم کرے گی۔ یہ پاکستان کے قبضہ ذہنیت کے حاملوں، یعنی طاقت اور لوگوں کے پیسے اور زمین پر قبضہ جمانے والوں کے خلاف پہلا دھچکا ہو گا۔

یہ تھے 2008 کے ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ)۔ اور ایک ہیں آج کے ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ )، جو نیب (قومی احتساب بیورو) کے چیئرمین ہیں۔ اس وقت وہ غاصبوں کے فاش ازم کی حقیقت کا پرد ہ چاک کر رہے تھے۔ اس وقت وہ کتنی وضاحت سے یہ بتا رہے تھے کہ قبضہ ذہنیت کا فاش ازم کس طرح انتظامیہ کو مضبو ط کرتا ہے؛ عدلیہ کو کس طرح کمزور کرتا ہے؛ پارلیمینٹ کو کس طرح بے اثر بناتا ہے؛ میڈیا کو کس طرح کنٹرول کرتا ہے۔ اس وقت وہ کتنی صراحت سے یہ حقیقت کھول رہے تھے کہ وکلا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیا دت میں غاصبوں کے فاش ازم کے خلاف آگہی کس طرح پیدا ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ کتنے متاثر کن انداز میں یہ لکھ رہے تھے کہ کس طرح عدلیہ، عدلیہ کی آزادی کو قائم کرے گی؛ اور طاقت، لوگوں کے پیسے اور زمین پر قبضہ جمانے والوں کو کس طرح زک پہنچائے گی۔

آج وہی ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ) اسی عدلیہ کے خلاف اسی اتنظامیہ سے شکوے کر رہے ہیں، جو اسے کمزور کرتی ہے۔ اور اسی عدلیہ کے بارے میں شکوک کا اظہار کررہے ہیں، جو فاش ازم کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج وہ اسی میڈیا کے بارے میں تحفظات ظاہر کر رہے ہیں، اور بتا رہے ہیں کہ وہ ” نیب“ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے، جس نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا غیر معمولی ساتھ دیا۔ کیا وقت بدل گیا ہے؟ کیا داخلی غاصب بدل گئے ہیں؟ کیا فاش ازم بدل گیا ہے؟ یا ایڈمرل فصیح بخاری (ریٹائرڈ) بدل گئے ہیں۔ یہ ایک عجیب مخمصہ ہے، حل ہو گا یا نہیں! یا یہ کہ پاکستان میں ایسے ہی ہوتا ہے!


[یہ کالم 31 جنوری، 2013 کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں