پولیو کے قطرے پاکستان کے لیے دردِ سر بن گئے ہیں۔ بلکہ خون کے قطرے ثابت ہو رہے ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ گذشتہ دنوں میں مولانا عبدالحلیم شرر کے مضامین کا مجموعہ، ”مضامینِ شرر“ جلد ہفتم پڑھ رہا تھا۔ یہ 1893 میں چھپی۔ اس میں شامل ایک مضمون مجھے بہت دلچسپ لگا۔ اس کا عنوان ہے: ”چیچک کا ٹیکا اورلیڈی مانٹیگو“۔ اس کے کچھ حصے مولانا شرر کے لفظوں میں آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
کتنی بڑی حیرت کی بات ہے کہ چیچک کا ٹیکا، جو آج دنیا میں خدا کی ایک بڑی بھاری برکت ہے، اور جس کے رواج دینے پر یورپ جس قدر فخر کرے، بجا ہے۔ دراصل ایک مشرقی علاج ہے۔ اورغالباً مسلمانوں سے ہی لیا گیا ہے۔ ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ کامیابی کے اتنے تجربوں کے بعد بھی اب تک یہ حال ہے کہ ٹیکا لگائے جانے کے خوف سے مائیں بچوں کو چھپاتی پھرتی ہیں۔ پرانے مذاق کے باپ بھائی ننھے بچوں کے لیے ٹیکا لگانے والوں سے کشتیاں لڑنے یا انھیں رشوت دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے مہذب لوگوں کا یہ حال ہے کہ دفع الوقتی کے لیے جھوٹ فقرے بناتے ہیں اور بہت سے ملکی حکیم اور وید بھی باوجود عقل رکھنے کے اپنی طرف سے تصنیف کر کر کے ٹیکے کے رواج دینے پر مختلف اور طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں۔ اور یہ نہیں پسند کرتے کہ اس لاکھوں دفعہ کے آزمائے ہوئے علاج سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ان کی اس نفرت و مخالفت کو دیکھ کے جب ہم اس کا خیال کرتے ہیں کہ یہ طریقۂ علاج انھیں کے یہاں سے سیکھا گیا ہے تو بڑی حیرت معلو م ہوتی ہے۔ اور تعجب آتا ہے کہ اپنی ہی چیز جب غیروں کے ہاتھ سے ملے وہ کس قدر اجنبی اورمہیب بن جاتی ہے؟
ٹیکے کو سب سے پہلے انگلستان کی ایک تعلیم یافتہ شریف زادی اور مہذب و دانا خاتون نے رواج دیا، جس کا نام لیڈی مانٹیگو میری ورٹلی تھا۔ وہ 1690 میں انگلستان کے علاقہ نوٹنگھم شائر میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کا باپ ڈیوک آف کنگسٹن روشن خیال امرائے انگلستان میں تھا، جس نے بیٹی کو اچھی سے اچھی تعلیم دلائی۔ اور بیٹی کو بھی علم وفضل کا ایسا شوق تھا کہ لاطینی زبان میں اچھا خاصا درخور حاصل کر لیا اور بڑی نمایاں ترقی کی۔ بائیس برس کے سن کو پہنچی تو انگلستان کے ایک نامی گھرانے کے اقبال مند نوجوان ایڈورڈ ورٹلی مانٹیگو کے ساتھ شادی ہو گئی۔ مسٹر مانٹیگو نے پارلیمنٹ میں چمکنا اورنمود حاصل کرنا شروع کیا۔ چند ہی روز میں وہ بڑا قابل اور روشن خیال ممبر ثابت ہوا۔ انگلستا ن کے اعلیٰ درجے کے مدبران سلطنت میں شمار کیا جاتا تھا۔ 1716 میں مسٹر مانٹیگو قسطنطنیہ کا سفیر مقرر ہو کے دولت عثمانیہ کے دارالسلطنت کو روانہ ہوا۔ لیڈی میری مانٹیگو نے بھی شوہر کے ساتھ استنبول کی راہ لی۔ جہاں دونوں میاں بیوی کو دو سال تک رہنا پڑا۔
قسطنطنیہ میں انگلستان کے بہت سے سفیر اس سے پہلے بھی آ چکے ہوں گے، مگر مسٹر مانٹیگو نے محض اپنی بیوی کی قابلیت سے جو ناموری و شہرت حاصل کی، اس سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ لیڈی میری یہاں ترکی کے امرا خاندانوں سے ملیں۔ ان کے حالات دریافت کیے۔ اور جو کچھ واقعات معلوم ہوتے انھیں لکھ لکھ کے لندن میں اپنے دوستوں کو بھیجا کرتیں۔ یہ خطوط اس قدر دلچسپ تھے کہ لوگوں نے شوق اور قدر سے جمع کیے۔ اور ہر طرف لوگوں میں ان کے پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ قیام قسطنطنیہ کے زمانے ہی میں لیڈی میری مانٹیگو کو پتہ چلا کہ یہاں بعض گاؤوں میں چیچک کے روکنے کے لیے بعض مائیں اپنے بچوں کے ٹیکا لگایا کرتی ہیں۔ اس نئے اور عجیب علاج کو انھوں نے ان گاؤوں میں جا کر دریافت کیا۔ جو عورتیں اس کا طریقہ جانتی تھیں، ان سے مل کے کیفیت دریافت کی۔ ان لڑکو ں کو دیکھا جن کو ٹیکا لگایا گیا تھا۔ خوب اچھی طرح آزما لینے کے بعد خود اپنے فرزند کے ٹیکا لگایا۔ اور دیکھا کہ وہ چیچک سے بالکل محفوظ رہا۔ تب انھوں نے آزمائش کے لیے اور بہت سے لڑکو ں کے ٹیکا لگایا۔ اور پھر اسے عام لوگوں میں پھیلانے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی یورپ میں ان کی کوشش سے ٹیکے کا رواج ہو گیا۔ اور لوگ اس حکمی علاج کی قدر کرنے لگے۔
1718 میں لیڈی میری اپنے شوہر کے ساتھ انگلستان واپس آئیں اور مقام ٹوئی کنہم میں بود و باش اختیار کی۔ یہاں بھی انھیں شب و روز ٹیکے کے رواج دینے ہی کی فکر رہا کرتی تھی۔ اب لیڈی میری کا سن 49 سال کا تھا۔ طبیعت ناساز رہنے لگی۔ اور معلوم ہوا کہ انگلستان کی آب و ہوا موافق نہیں ہے۔ تبدیل آب و ہوا کے لیے ایطالیہ کا سفر کیا۔ وہاں شہر وینس میں جا کے اقامت گزیں ہوئیں۔ اور صحت برقرار رکھنے کے لیے اس طرح پانوں توڑ کے بیٹھیں کہ 22 سال وہیں گزر گئے۔ 1761 میں 71 برس کی بوڑھی اور واجب التعظیم خاتون بن کے پھر انگلستان میں آئیں۔ اس لیے کہ ان کی بیٹی لیڈی ہیوٹ نے تاکید سے بلا یا تھا۔ مگر عمر پوری ہو چکی تھی۔ تندرستی نے جواب دے دیا۔ اور وطن میں آ کے شاید پورے ایک برس بھی نہ رہی ہوں گی کہ 1762 میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اور ناموری اورنیکو کاری کے رجسٹرمیں اپنا نام لکھوا کے دوسرے عالم باقی میں جا پہنچیں۔
مگر دنیا میں ان کی دو نہایت ہی قابل قدر یادگاریں باقی رہیں گی۔ جن میں سے ایک بھی کسی کو حاصل ہو تو اس کی ناموری و برکت کے زندہ رکھنے کو کافی ہے۔ ایک تو چیچک کا ٹیکا، جس سے اب ساری دنیا نفع اٹھا رہی ہے، اور ہندوستان ہی نہیں، دنیا کے ہر ملک کے گاؤوں گاؤوں میں لیڈی میری کی یہ یادگار اپنی برکتوں سے نوع انسا ن کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اور دوسری یادگار ان کے وہ خطوط ہیں، جو انھوں نے قسطنطنیہ سے اپنے احباب کو لکھے تھے۔ انگلستان کے لوگوں میں ان کے مطالعہ کا شوق اس قدر بڑھا ان کی وفات کے دوسرے سال ہی وہ خطوط تین جلدوں میں مرتب و مدون ہو کے شائع ہوئے۔ چند روزبعد لوگوں کو کچھ اور خطوط ملے۔ اور چوتھی جلد بھی مرتب ہو کے شائع ہو گئی۔ ان خطوط کی زبان ایسی دلکش اور شیریں تھی کہ بہت ہی پسند کیے گئے۔ خصوصاً اس لیے کہ ترکوں کے قومی خصائص معلوم ہونے کا یورپ میں جس قدر شوق تھا، اسی قدر حالات سے لا علمی تھی۔ لیڈی میری سے پہلے کسی نے ایسی تفصیل و تحقیق سے آل عثمان کے حالات نہیں بتائے تھے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ترکوں کے حالات میں جو پہلی کتاب انگلستان میں شائع ہوئی، یہی تھی۔
یہ تھا چیچک کے ٹیکے اور اسے مقبولِ عام بنانے کے حوالے سے لیڈی میری کے کام سے متعلق مولانا شرر کا دلچسپ مضمون۔ کاش مولانا شرر آج زندہ ہوتے، اور پولیو کے قطروں کے بارے میں بھی کچھ لکھتے!
[یہ کالم 4 اپریل کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں