جمعرات، 12 ستمبر، 2013

یہ ہواؤں کے مسافر، یہ سمندروں کے راہی!

ابھی ’’شاہی سید والی خبر‘‘ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک اور خبر منظرِ عام پر آ گئی۔

پہلے یہ خبر 29 اگست (روزنامہ ’’جنگ‘‘) کو سامنے آئی۔ ملاحظہ کیجیے:


پھر 30 اگست (روزنامہ ’’جنگ‘‘) کو اس کی مزید تصیل شائع ہوئی:


اس کی تردید کا سامان بھی کیا گیا ہے۔ یہ بھی روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہی شائع ہوئی۔ گو کہ اب یہ خبر برقی میڈیا پر بھی پھیل چکی ہے۔ اس کی تردید آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ دیکھیے:


پاکستانیوں کی اس بے چارگی پر کیا کہا جا سکتا ہے۔

پاکستانی ریاست پاکستانی شہریوں کو کس کس طرح لوٹتی ہے، اس کی تفصیل ’’طلسمِ ہوشربا‘‘ سے کم ہوشربا نہیں۔

اسے انتہائے زوال ہی کہا جا سکتا ہے کہ جنھیں محافظ بنایا جائے، وہیں لٹیرے بن جائیں!

یہ حساس ادارے کتنے بے حس ہو چکے ہیں، یہ سوچ کر حواس گم نہ ہوں تو کیا ہو!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں