اس سلسلے کے پہلے دو کالم ملاحظہ کیجیے: پاکستانی اشرافیہ کی ذہنیت، پاکستانی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ
سابقہ کالم میں یہ بات ہو رہی تھی کہ جو لوگ کسی مصیبت کی آگ میں زیادہ جلتے ہیں، ان کا سیاسی شعور زیادہ پختہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ، جس آگ میں جل رہے ہیں، اور بالخصوص کراچی کے لوگوں کو جس آگ میں جلایا جا رہا ہے، کیا مصنفہ اس سے واقف نہیں! اور یہ بھی کہ کیا پاکستان کے لوگ صرف دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیا پاکستان میں صرف دہشت گردی کی آگ سلگائی گئی! کیا پاکستان کے لوگ مذہبی تشدد، فرقہ وارانہ منافرت، امن و امان، اور بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی آگ میں نہیں جل رہے! سب سے بڑا سوال، جو مصنفہ سے پوچھا جانا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کے لوگوں کو ان آگوں میں اسی لیے جلایا جا رہا ہے کہ ان کا سیاسی شعور پختہ ہو، اور انھیں سچی بصیرت اور واضح آگہی حاصل ہو! اگر ایسا ہی ہے تو بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا!
اس کے بعد مصنفہ، نفیسہ رضوی، اس بات پر مایوسی کا اظہار کرتی ہیں کہ چونکہ پاکستانی ووٹروں نے تبدیلی، اور بہتر اور روشن تر مستقبل کو ووٹ نہیں دیا، لہٰذا، اب تحریکِ انصاف کو حزبِ اختلاف میں بیٹھنا پڑے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ حزبِ اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ تو ایک ایسا مچھر ہوتی ہے، جو ڈنک کے بغیر ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ انتہائی غیر سیاسی بات ہے۔ جتنا اہم حزبِ اختلا ف ہوتی ہے، اتنا اہم توخود حکومت نہیں ہوتی۔ اس میں یہ مغالطہ ضرور پوشید ہ ہے کہ حزبِ اختلاف کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں۔ یا یہ صرف یہ سمجھتی ہے کہ یہ اس وقت ہی کچھ کر سکتی ہے، جب حکومت میں ہو گی۔ پھر یہ بھی کہ اگر حزبِ اختلاف صرف حکومت کی مسند پر براجمان ہونا چاہتی ہو تو وہ سارا وقت کڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرے گی۔ یوں وہ حسد کی آگ میں جلتی رہتی ہے۔ اس کا یہ حسد دو طرح کا ہو سکتا ہے: ایک تو یہ کہ یہ خود حکمران نہیں، اسے حکمران ہونا چاہیے تھا۔ دوسرے یہ کہ اگرحکومت کوئی اچھا کام کرلے تو اسے یہ کام پسند نہیں آتا، کیونکہ یوں اس کی حریف حکومت کو لوگوں میں قبولیت حاصل ہوسکتی ہے، اور حکومت میں آنے کے لیے اسے جو انتظار کرنا پڑے گا، اس کا عرصہ طویل ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے حسد کی تازہ مثال حالیہ انتخابات میں سامنے آئی۔ بالخصوص مسلم لیگ (ق)،جو حزبِ اختلاف میں تھی، وہ بظاہر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ایک بہتر اقدام، میٹرو بس سروس، کو ”جنگلہ بس“ کا نام دے کر اس کا مضحکہ اڑاتی رہی، جبکہ یہ ایک ایسا کام ہے، جس میں خامیاں تو نکالی جا سکتی ہیں، اس کے کئی پہلوؤں پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
متذکرہ مضمون، ”افسوس بچو، ہم نے اسے غلط سمجھا“ کی مصنفہ کا انداز بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ تحریکِ انصاف، حزبِ اختلا ف میں بیٹھ کر کچھ نہیں کر سکتی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان کا آئین حکمرانی کے معاملات میں حزبِ اختلاف کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔ مزید یہ کہ گذشتہ برسوں میں آئین میں جو ترامیم ہوئی ہیں، انھوں نے حزبِ اختلاف کے ”مچھر“ کو ڈائینو سار کے دانت لگا دیے ہیں۔ تاہم، اس بات کا انحصار خود حزبِ اختلاف پر ہے کہ وہ اس کے باوجود، مچھر رہنا چاہتی ہے، یا ڈائینو سار بننے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اصل میں ایک حقیقی حزبِ اختلاف بننے کے لیے دانائی کے ساتھ ساتھ بہت بڑا دل اور شیر جیسا حوصلہ درکار ہے۔ جیسا کردار حزبِ اختلاف ادا کرتی ہے، جو تنقید وہ کرتی ہے، جن معاملات پروہ اپنے نقطۂ نظر اور اندازِ نظر کو سامنے لاتی ہے، کل کلاں اگر وہ خود اقتدار میں آ جائے تو یہ سب چیزیں اس کے گلے کا طوق بن جاتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی حزبِ اختلاف کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مزید یہ کہ مصنفہ کی اس مایوسی سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے، جیسے کہ وہ یہ سمجھتی تھیں کہ اقتدار، تحریکِ انصاف، یا پاکستانی اشرافیہ جس پارٹی کو ووٹ دے رہی ہے، اس کا حق ہے۔ یہ اس پارٹی کو بہر صورت ملنا چاہیے تھا، اور اصل میں یہ ”لطیف“ جیسے لوگ ہیں، جن کے ووٹوں نے، اشرافیہ نے جس پارٹی کی حمایت کی، اس کی راہ میں روٹے اٹکائے۔ اس سوچ میں کہیں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ جب ہم نے، یعنی اشرافیہ نے ایک پارٹی کو ووٹ دے دیے تو اس پارٹی کو حکمران پارٹی بن جانا چاہیے۔ اس استدلال میں یہ قضیہ بھی مخفی ہے کہ اشرافیہ کے ووٹ، بادشاہ ساز ووٹ ہوتے ہیں، اور یہ جس پارٹی کو مل گئے، اقتدار اس پارٹی کا حق بن جاتا ہے!
اس کے بعد مصنفہ کچھ انکشافات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ تحریکِ انصاف نے کیا کیا کچھ نیا کیا۔ کیا کیا نئے ریکارڈ بنائے۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف نے سیاسی لغات کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔ اس نے کارنر میٹنگز (کارنر جلسے) کا آغاز کیا۔ ان ”انکشافات“ کا کچھ جواب تو کامران شفیع دے چکے ہیں۔ اس ضمن میں مزید یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصنفہ جیسے سب کچھ نئے سرے سے ایجاد ہوتا ہوا دیکھ رہی ہیں۔ ان کے دیکھنے کا یہ انداز تو نیا ہو سکتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر چیز نئی بھی ہو۔ سیاست سے شوق اور دلچسپی رکھنے والے ناخواندہ افراد بھی سیاست کی لغات سے واقف ہیں۔ وہ اس لغات کی گوناگونی اور رنگینی کا ادراک رکھتے ہیں۔ ہاں، ایک بات، جسے تحریکِ انصاف کی ایجاد قرار دیا جا سکتا ہے، وہ سوشل میڈیا کا وسیع تر استعمال ہے۔ اس نے باقی سیاسی پارٹیوں کی نسبت، سوشل میڈیا کو کہیں زیادہ استعمال کیا۔ یہی چیز ایک مغالطے کا سبب بھی بنی۔ سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت دیکھ کرتحریکِ انصاف یہ سمجھ بیٹھی کہ اس نے انتخابات اور لوگوں کا اعتماد جیت لیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اشرافی طبقات یا ان کی اکثریت سوشل میڈیا پر تیرتی، حرکت کرتی اور زندہ رہتی ہے۔ مگر پاکستان کے عام لوگوں کی اکثریت یا تواس ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں رکھتی، یا پھر زندگی کے اس انداز سے بہت زیادہ واقف نہیں۔ ہاں، انھوں نے موبائل فون کو اپنا ہمراہی ضرور بنا لیا ہے۔ مزید یہ بھی کہ اب تو قریب قریب سب کی سب سیاسی پارٹیاں، سوشل میڈیا پر اپنا وجود ثابت کر رہی ہیں، اور اسے استعمال کرنے کی طرف مائل ہیں۔
مصنفہ کی یہ بات قدرے درست ہے کہ تحریکِ انصاف کی سیاست کے انداز نے پاکستان کے سیاسی ماحول میں یہ ایک تبدیلی ضرور پیدا کی کہ موجودہ انتخابات میں مبہم نظریاتی گفتگو کچھ سکڑ گئی؛ اور بڑے بڑے مسائل کو کیسے حل کیا جائے، بحث اس پر مرتکز ہوئی۔ لیکن اس بات کو صاف کرنا ضروری ہے۔ ”نظریاتی گفتگو“ ابھی پوری طرح سمٹی نہیں؛ ہاں اس میں کمی ضرور ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی جو بھی جیسی بھی پارٹی ہے، گذشتہ پانچ برس میں اس کا جو تیا پانچہ کیا گیا ہے، اس کے باوجود، پاکستانی سیاست میں، جس چیز کو نظریاتی سیاست کہا جاتا ہے، وہ ابھی تک اگر موجود ہے تو صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ موجود ہے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی کی نظریاتی سیاست اپنی موت آپ مر چکی ہے، اور یہ اس بچے کھچے پر گزارہ کر رہی ہے، جو اس نے ستّر کی دہائی میں سوشلزم کے نظریے کی بنیاد پر کمایا تھا۔ یہ یہی بچا کھچا نظریہ ہے، جس نے اسے موجودہ انتخابات میں، سندھ میں زندہ رکھا۔ جہاں تک تحریکِ انصاف کے سیاسی بیانیے کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کچھ بڑے بڑے مسائل، جیسے کہ کرپشن، تعلیم، وغیرہ، پر فوکس کیا اور ان کے حل سے متعلق اپنی حکمتِ عملی واضح کی۔ مگر اس سیاسی بیانیے کو بہت بڑے پیمانے پر فروغ نہیں دیا گیا۔ اس میں وسیع تر سطح پر لوگو ں کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ بہت محدود رہا۔ یہ بیانیہ انتخابی منشوراور برقی و پرنٹ میڈیا سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جبکہ اسے بڑے بڑے جلسوں اور کارنر میٹنگز کاموضوع بننا چاہیے تھا۔ دوسری پارٹیوں کی طرح،عمران خان نے بھی جلسوں کی تقاریر میں بامعنی سیاسی بیانیے پر دھیان نہیں دیا، اور بے معنی مہمل گفتگو سے فائدہ اٹھاتے رہے، جس کا ذکر کامران شفیع نے بھی کیا۔ تحریکِ انصاف ان جلسوں کو سنجیدہ مباحث کا مرکز بنا سکتی تھی، لیکن اس نے بھی سیاسی جلسوں کو مخالفین پر کیچڑ اچھالنے اور غیر سنجیدہ نعرے بازی کا ذریعہ بنالیا!
[یہ کالم 16 جون کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں