کسی بھی قسم کی قوت، طاقت، اختیار، وغیرہ، سب اتھاریٹی کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ قوت اور طاقت پیدائشی اور فطری بھی ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ بعض جانور، شیر، ہاتھی، چیتے، گینڈے، پیدائشی اورفطری طور پر طاقت ور ہوتے ہیں۔ یا اسی طرح کچھ افراد بھی طاقت ور ہو سکتے ہیں۔ یا یہ کہ محنت اورکوشش سے بھی مختلف طرح کی قوت اورطاقت حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیسے کہ پہلوانی داﺅ بیچ، جوڈو کراٹے، تائی کوانڈو، کنگ فو، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بھی فرد کو ایک قسم کی طاقت کا حامل بناتی ہیں۔ یہ قوت اورطاقت انسانی وجود اورجسم کا حصہ ہوتی ہے۔ اسے اس سے علاحدہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
تاہم، قوت اور طاقت کی ایک قسم اور بھی ہے۔ یہ ان تمام اشیا پر مشتمل ہے، جنھیں حملے یا دفاع کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے انسانی وجود اور جسم سے جدا کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ان اشیا کے استعمال کی مہارت کو انسانی وجود اور جسم کو نقصان پہنچائے بغیر اس سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ درخت سے توڑی ہوئی ایک مضبوط شاخ کو بغیر مہارت کے یا مہارت کے ساتھ حملے یا دفاع دونوں کے لیے کام میں لایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، آتشیں اسلحہ بھی ہے۔ مہارت کے ساتھ یا مہارت کے بغیر اس کا استعمال حملے یا دفاع، دونوں صورتوں میں کامیابی اور بقا کے امکان کو بڑھا یا گھٹا سکتا ہے۔
یہ قوت اورطاقت کی وہ قسمیں ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح خود انسان یا اشیا سے ہے۔ انسان حملے یا دفاع کی صورت میں عام طور پر یا تو خود پر بھروسہ کرتا ہے یا دوسری اشیا پر۔ یا دونوں پر انحصار کرتا ہے۔ حملے یا دفاع کے لیے اس کی مہارت اس وقت تک بیکار ہوتی ہے، جب تک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جانے والی اشیا دستیاب نہ ہوں۔ ایک شخص آتشیں اسلحے کے استعمال پر دسترس رکھتا ہے، لیکن اگر آتشیں اسلحہ ہی موجود نہ ہو تو وہ کیا کرے گا۔ مراد یہ کہ قوت اورطاقت نہ صرف انسانی وجود اورجسم بلکہ اشیا میں بھی ناقابلِ علاحدہ طور پر موجود ہوتی ہے، تاآنکہ نقصان پہنچا کر اسے ضائع نہ کر دیا جائے۔
قوت اور طاقت کی ان دو بڑی اقسام کے علاوہ، ایک اور قسم کی قوت اور طاقت بھی وجود رکھتی ہے۔ اسے انسانی معاشرے کی پہچان اور تہذیب و ترقی کا مظہر کہا جاتا ہے۔ یہ ”اختیار“ ہے۔ اختیار بھی فرد کو ایک قسم کی قوت اور طاقت عطا کرتا ہے۔ جس شخص کو کوئی اختیار تفویض کر دیا جائے، وہ کمزور اور نہتا ہونے کے باوجود قوی اورطاقت ور بن جاتا ہے، اور جس شخص سے اختیار چھین لیا جائے، وہ تگڑا اور مسلح ہونے کے باوجود قوت اور طاقت سے محروم ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”اختیار“ کس طرح وجود میں آتا ہے، اسے کون وضع کرتا ہے؟ اس کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ کسی بھی طرح کی طاقت کے بل بوتے پر اختیار حاصل کر سکتا ہے۔ بلکہ فی الواقعہ ایسا ہوتا ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر اختیار قائم کر لیا جاتا ہے اوراس اختیار کا نفاذ بھی کر دیا جاتا ہے۔ یہ جنگل کا قانون ہے۔ جو زیادہ طاقت ور ہے، وہ مختار و مقتدر بن جاتا ہے۔ قبل جدیدی بادشاہت میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ جو فرد یا گروہ، حربی و ضربی اعتبار سے اپنی قوت و طاقت ثابت کر دیتا، اپنے مخالف و مقابل کو زیر کر لیتا، وہ اختیار حاصل کر کے مختارِ کل بن جاتا۔ بلکہ اس طرح ”اختیار“ حاصل کر لینے کے بعد خود اس کی ذات اور بات قانون کا منبع قرار پاتی۔ ہر فرمانِ شاہی خود بخود قانون کی حیثیت اختیار کر لیتا۔ یوں، قوت اور طاقت کے بل بوتے پر اختیار حاصل کرنے والا فرد نہ صر ف اتھاریٹی، بلکہ قانون کی تشکیل اور اجرا کا ماخذ بھی بن جاتا۔ جیسے فوج مارشل لا یعنی ہنگامی قانون نافذ کر دیتی ہے، اور مارشل لا آرڈر جاری کرنا شروع کر دیتی ہے۔
تاہم، تہذیب کی ترقی کے ساتھ، ایک اور طرح کے ”اختیار“ کا تصور بھی سامنے آیا۔ یہ قدیم اور ابتدائی معاشروں میں خام صورت میں موجود رہا تھا۔ مثال کے طور پر سردار، یا مَلِک، یا پنچ، یا پنچایت کے ادارے کا قیام۔ ایک گروہ متفقہ یا اجتماعی طور پر کسی فرد کو سردار یا پنچ یا چند افراد کی پنچایت کی حیثیت سے منتخب یا نامزد کر لیتا، اورپھر اسے اختیار تفویض کر دیا جاتا۔ یہ اختیار، قوت اورطاقت کے بل پر حاصل یا قائم کیا گیا اختیار نہیں تھا۔ اس کی تشکیل جمہوری اختیار و رائے سے ہوتی تھی۔
اسی اختیار نے بعد ازاں قانونی اختیار کی صورت پائی۔ یعنی یہ اختیار قانون سے اخذ ہوتا تھا اور قانونی حیثیت رکھتا تھا۔ اب فرد یا گروہ کے اختیار کا ماخذ قوت اور طاقت نہیں، بلکہ قانون، قوت اورطاقت یا اختیار کا سرچشمہ بن گیا۔ بادشاہت کے بعد جدید دور کا طُرۂ امتیاز یہی قانونی اختیار تھا، جو مزید ترقی پا کر آئینی اختیار میں منتقل ہوا۔ معاشروں اورملکوں کو منظم کرنے اوران کا نظم و نسق چلانے کے لیے آئین وضع کیے گئے۔ آئینی اختیارات اور آئینی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ اتھاریٹی کا ایک نیا تصور، یعنی آئینی اورقانونی اتھاریٹی کا تصور رائج ہوا۔ قوت اور طاقت کو آئین اور قانون کے تابع کر دیا گیا۔ یوں، جنگل کے قانون سے انسانی و سماجی قانون کی طرف پیش رفت ممکن ہوئی۔ یہ انسانی تہذیب میں ایک بڑی جست تھی۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسانی معاشروں اور تہذیبوں کا ارتقا، خطِ مستقیم پر نہیں ہوتا۔ بہت سے معاشرے اورملک، اتھاریٹی کے قدیم اور جدید تصور کے مابین ڈولتے رہے ہیں، اور ڈول رہے ہیں۔ وہ کبھی آگے جاتے ہیں، کبھی پیچھے۔ کبھی ”دائیں“ جاتے ہیں اور کبھی” بائیں۔“ اکثر پسماندہ اور ترقی پذید ملک غیر مہذب ہیں، اوران کے شہریوں کی اکثریت، قوت اور طاقت کے بل پر حاصل کیے جانے والے اختیار کے طلسم اور اثر سے مرعوب و مسحور ہے۔ پاکستان بھی ایسے ہی ملکوں میں شامل ہے۔ یہاں بھی قوت، طاقت، زور زبردستی، دھونس دھاندلی، جبر و تشدد کو نہ صرف پوجا جاتا ہے، بلکہ اسے ہر مسئلے کا واحد حل بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے قانون دشمن ماحول میں طاقت پسند گروہ اور قوتیں بڑی آسانی سے جڑ پکڑتی اور نشو و نما پاتی ہیں۔ یہ آئینی اور قانونی اتھاریٹی کو قطعاً خاطر میں نہیں لاتیں۔ بلکہ یہ قوتیں جس آئین اور قانون کے تحت اختیار اور قوت و طاقت حاصل کرتی ہیں، جس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتی ہیں، اسی سے منحرف ہو جاتی ہیں۔ اور یوں ملک و معاشرے کو دوبارہ جنگل اور بادشاہت کے قانون کی طرف گامزن کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ اور ترقی پذید ملک ایک بھینس بن کر رہ گئے ہیں، اور یہ بھینس اس کی ہے، جس کے پاس لاٹھی ہے۔
اتھاریٹی کے ان تین تصورات میں ایک اور تصور کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال، طاہرالقادری کا لانگ مارچ ہے، جو اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہے۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تحلیل کی جائیں، وغیرہ، وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص لاکھ دو لاکھ کا مجمع لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے، اور حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے لگے، تو کیا حکومت ختم ہو جانی چاہیے۔ کیا لاکھ دولاکھ یا دس لاکھ افراد کا مجمع اس بات کا جواز بن سکتا ہے کہ ان حکومتوں کو ختم کر دیا جائے، جوآئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ کیا طاہر القادری کا انداز پاکستانی شہریوں کی اس طاقت کا غیر آئینی اور غیر قانونی استعمال نہیں، جو آئین اور قانون کی صورت میں پاکستان میں پہلے ہی موجود ہے۔ مراد یہ کہ کل کلاں کوئی لاکھ دس لاکھ کا مجمع جوڑ لائے، اور کہے پاکستان کا آئین لپیٹ دو، تو کیا آئین کو لپیٹ دیا جانا چاہیے۔
مجمعے اور ہجوم کی منطق کا یہ استعمال نہ صرف آئین مخالف ہے، بلکہ اتھاریٹی کے آئینی اور قانونی تصور سے بھی متصادم ہے۔ ہاں، ہر کسی کو آئینی اور غیر آئینی مطالبات کرنے کا حق ہے، مگر ان مطالبات کو منوانے کے لیے غیر آئینی اور غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں!
[یہ کالم 17 جنوری کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں