گذشتہ کالم، ”انتخابات یا سیاسی ہانکا“ جیسے نامکمل رہ گیا تھا۔ خود مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا، وہ اس کالم میں پوری طرح کہا نہیں جا سکا۔ جو مفہوم میرے ذہن میں تڑپ رہا ہے، وہ اپنی پوری شدت کے ساتھ اس کالم میں ادا نہیں ہو سکا۔ انتخابات کو سیاسی ہانکا قرار دینے پر بھی ایک تشنگی اور بے چینی، دل کے ساتھ لگی رہی۔ اصل میں کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہا کہ کیا کہنا چاہتا ہوں۔ بالکل ایسی کیفیت ہے، جیسے بعض اوقات جسم پر کہیں خارش محسوس ہوتی ہے، مگر یہ پتہ نہیں چل پاتا، یہ خارش کہاں ہو رہی ہے۔ اسی طرح، مجھے یہ ادراک نہیں ہو پا رہا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ابھی آج صبح یہ احساس ایک دم وارد ہوا۔ گھر سے باہر نکلا تو ایک عزیز مل گئے۔ کہیں جا رہے تھے۔ بہت پریشان اور مشتعل تھے۔ ابھی میں ان سے کچھ پوچھ بھی نہ پایا تھا کہ انھوں نے بجلی کا بِل میرے سامنے پھیلا دیا۔ یہ دیکھیں، پچاس یونٹ جلے ہیں، اور بِل 16,000 آیا ہے۔ میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
وہ ابھی سال ڈیڑھ سال پہلے سعودی عرب سے مستقل طور پر واپس آئے ہیں۔ انھوں نے مزید اضافہ کیا: سعودیہ میں ایک پولیس والے کو یہ بِل دیتا تو دس منٹ میں ٹھیک ہو جاتا۔ بھیجنے والے کو سزا بھی ملتی۔ وہ آگے چلے گئے۔ بجلی والوں کے دفتر جارہے ہوں گے، پاکستانی ہونے کا عذاب سہنے! مجھے یاد آیا کہ سعودی عرب جیسا بھی ہے، وہاں کی بادشاہت نے اپنی ”رعایا“ کو کچھ نہ کچھ تحفظ تو مہیا کیا ہے۔ وہاں کی بادشاہت نے اپنے لوگوں کو مستقل مجرم تو قرار نہیں دیا ہوا ہے۔ اسی طرح، مجھے یاد آیا، ہم سوشلزم کو جتنا برا سمجھیں، اور میں خود اسے غیر انسانی نظام سمجھتا ہوں، لیکن سوشلسٹ ملکوں نے بھی اپنے شہریوں کے لیے کچھ نہ کچھ حاصل کیا۔ جیسے کہ تعلیم، صحت، اور کچھ دوسری سہولیات۔ یہ چیزیں تمام شہریوں کو میسر تھیں۔ انھوں نے اپنے شہریوں کے لیے ایک مخصوص معیارِ زندگی کا حصول ممکن بنایا۔ پاکستان میں مختلف طرح کی حکومتوں نے، جن میں فوجی اورسول آمریتیں، جمہوریتیں، شامل ہیں، انھوں نے اپنے شہریوں کو کیا دیا۔ یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے شہریوں کو کیا دیا۔ بلکہ الٹا ان سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے اپنے شہریوں پر جرائم پیشہ گروہوں کو مسلط کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ، ریاستی مشینری کو بھی عام شہریوں کا خون چوسنے پر لگا دیا۔ مختصراً، یہ کہ پاکستانی ریاست نے بالخصوص اپنے عام شہریوں کے ساتھ مجرم سے بھی بدتر سلوک روا رکھا، اور ان کی روزمرہ زندگی کو ریاستی مشینری کے ہاتھوں مستقل عذاب کا شکار کر دیا، اور آج بھی ریاستی مشینری عام شہریوں کی سب سے بڑی شکاری ہے۔
بس اس ایک بات نے میری الجھن، سلجھا دی۔ یہی گِرہ تھی، جو مجھ سے کھُل نہیں رہی تھی۔ مجھے خود ایسے کتنے ہی عذاب یاد آ گئے، جو میں نے ریاستی اور سرکاری اداروں کے ہاتھوں سہے تھے، اور اب بھی سہہ رہا ہوں۔ کروڑہا عام شہری ہیں، متعدد ریاستی، سرکاری، نیم سرکاری ادارے، جنھیں لوٹ رہے ہیں۔ انھیں عذاب وتکلیف میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ان کا خون چوس رہے ہیں۔ آرام و سکون برباد کر رہے ہیں۔ معصوم لوگوں کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔ اور مجرموں کو شکاری کتوں کی طرح ان پر چھوڑ رہے ہیں۔ یہ تو کارگزاری کرنے والے اداروں کی بات ہے۔ ان اداروں پر نظر رکھنے والے، اور ان سے انصاف دلانے والے ادارے، یہ ان سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ مراد یہ کہ اس سے بھی برا حال ان اداروں کا ہے، جو شہریوں کو ان اداروں کے خلاف ریلیف، اور انصاف مہیا کرنے کے ذمے دار ہیں۔ پولیس، عدالتیں، وفاقی و صوبائی محتسب، ٹیکس محتسب، ریگولیٹری باڈیز، اور اسی طرح کے متعدد دوسرے ادارے۔ یہ بالکل اس طرح ہے، جیسے عام شہری ایک طرف جائے تو بھیڑیوں کا شکار بنتا ہے، اور دوسری طرف جائے تو شیر کا۔ یعنی، عام شہریوں کے لیے پاکستا ن میں نہ پائے رفتن ہے، نہ جائے ماندن۔
اوپر بیان کی گئی یہ بے رحم حقیقت اپنی جگہ ہے۔ بلکہ ایسی کتنی ہی بے رحم حقیقتیں ہر گلی کوچے، اور ہر سرکاری دفتر کے برآمدوں میں تڑپ اور سسک رہی ہیں۔ دوسری طرف انتخابات کا چرچا اور زور و شور ہے۔ گذشتہ دہائیوں میں ہونے والے انتخابات ان حقیقتوں میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔ ملک پاکستان میں ریاست کے جنگلی جانوروں کی یہ چیر پھاڑ ایسے ہی جاری رہی۔ بلکہ اس چیرپھاڑ میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ کیا موجودہ انتخابات پاکستانی ریاست کے جنگلی جانوروں کی اس خون آشام چیر پھاڑ کا نوٹس لے سکیں گے۔ میں نے نوٹس لینے کی بات اس لیے کی ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے انتخابی منشورمیں ایسا کوئی ایجینڈا موجود نہیں۔ کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں ریاستی مشینری کی اس بے رحم لوٹ مار کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اسے قابو میں کرنے کی کوئی صلاح نہیں۔ پھر یہ انتخابات کیوں ہو رہے ہیں۔ اتنا تو واضح ہے کہ آئین کہتا ہے کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوں، اور شہریوں کے نمائندوں کو نئی حکومت بنانے کا اختیار ملے۔ درست ہے۔ مگر یہ بھی تو پتہ چلے کہ جتنی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، ان میں فرق کیا ہے۔ وہ کس بات پر انتخابات لڑ رہی ہیں۔ ایک سرے سے آخری سرے تک ہر پارٹی پر نظر ڈالیے، کیا کوئی فرق نظر آتا ہے۔ ہو گا تو نظر آئے گا!
جیسا کہ میں نے گذشتہ کال میں لکھا کہ ”آلو پارٹی“ کی حکومت نہیں بنتی تو کیا فرق پڑے گا۔ یا ”بینگن پارٹی“ کی حکومت بن گئی تو کیا فرق پڑے گا۔ کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کہ کیا یہ انتخابات نتیجہ خیز ہوسکیں گے۔ کیا کسی بھی پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے کوئی ایسی تبدیلی آ سکے گی، جو عام شہریوں کی زندگی کو آسان بنا سکے۔ مثلاً انھیں صرف ریاستی لٹیروں اور ریاستی مشینری کے مظالم سے ہی تحفظ مہیا کر سکے۔ میں صرف یہی نہیں، اس کے ساتھ، کچھ اور بھی کہنا چاہ رہا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کو نتیجہ خیز کیسے بنایا جائے۔ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو شہری دوست حکومت کیسے بنایا جائے۔ عام شہریوں کو ریاست کے خون آشام بھیڑیوں سے کیسے بچایا جائے۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کم از کم اتنا کچھ بھی نہیں کرتی تو یہ انتخابات محض ریاست پر قبضے کی جنگ کے علاوہ کچھ نہیں۔
انتخابات ریاست پر قبضے کی جنگ ہی تو ہیں، جس کے لیے تمام پارٹیاں اور تمام سیاسی لیڈر جنونی ہوئے پھر رہے ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہی ہے۔ ناک اور کانوں سے دھواں نکل رہا ہے۔ ان کی زبان ان کے ذہن کا ساتھ نہیں دے رہی، یا جو کچھ ان کے ذہنوں میں بھرا ہے، اسے عین مین اسی طرح باہر انڈیل رہی ہے۔ ریاست پر قبضے کی اس جنگ نے انھیں اس حد تک مفتوں کیا ہوا ہے کہ وہ اخلاقیات، قانون، سب کچھ بھلا بیٹھے ہیں۔ جھوٹ سچ کا فرق ختم کر بیٹھے ہیں۔ اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے سے اندھے ہو چکے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح ریاست پر قبضہ چاہتے ہیں۔ پاکستانی ریاست، جو دراصل سونے کی کان ہے۔ یہ سونے کی کان، مفت کا پیسہ بھی دیتی ہے، اختیار بھی۔ اثر و رسوخ بھی دیتی ہے، اور حیثیت بھی۔ جرائم پیشہ کے جرائم کو دھو دیتی ہے، اور انھیں استثنیٰ بھی عطا کرتی ہے! جس نے پاکستانی ریاست پر قبضہ کر لیا، اس کی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں، سر کڑاہی میں۔ پچھلے پانچ برس یاد کیجیے۔ یہ انتخابات بھی یوں معلوم ہوتا ہے، پاکستانی ریاست پر قبضے کی ایک اورجنگ سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوں گے!
[یہ کالم 3 مئی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں