پاکستان مسلم لیگ حکومت سے باہر ہوئی تو اسے متحد رکھنا ایک مسئلہ بن گیا۔ اقتدار کا کھونٹا اکھڑتے ہی جس کا منہ جدھر اٹھا وہ ڈکراتے ہوئے ادھر بھاگ کھڑا ہوا، جیسے باڑے میں بند مویشی یا گھوڑ ے یکدم آزاد ہو جائیں۔ کچھ تو ”آزادی“ سے خوفزدہ ہو گئے۔ کچھ اپنی اصل کھرلیوں تک جا پہنچے اور منہ مارنے لگے۔ کچھ نئے مالکوں کو رجھانے میں رجھ گئے۔ بپتا ہی کچھ ایسی آن پڑی تھی۔ ناگہانی آفت جیسی۔ چند دن تو کسی کو کچھ سمجھ ہی نہ آئی کہ کیا ہوا ہے۔ ہر کوئی ”مجرموں“ کی طرح چھپا چھپا اور غائب غائب رہا کہ کہیں وہی پکڑ میں نہ آ جائے۔
خیر، آہستہ آہستہ، ایک طرف پردے سے معشوق بر آمد ہوا۔ اس کے غمزے اور عشوے سامنے آئے۔ کشتوں کے پشتے لگنے لگے۔ اعلان اور آرڈر جاری ہوئے۔ وزیر مشیر نمودار ہوئے اور حکومتیں براجمان ہوئیں۔ حیلوں بہانوں کا کاروبار شروع ہوا۔ دوسری طرف سیاست کے گرم و سرد کا چشیدہ ایک راجہ، ڈھلتی عمر اور ٹھہرتی نظر کا حامل، کہنہ مشق اور تجربہ کار، جو واردات کے وقت ملک سے باہر تھا، حالات سنبھلتے ہی ملک میں وارد ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا بھالا۔ سوچا سمجھا، جانچا پرکھا۔ کچھ لوگ اس کے ساتھ آ ملے یا اس نے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا۔ تنکا تنکا اکٹھا کرنا شروع کیا۔ ڈرے ہوﺅں میں حوصلہ پیدا کیا۔ ناامیدوں کو امید دلائی۔ بھاگتوں کو آواز دی، جاتوں کو واپس بلایا۔ ناسمجھوں کو سمجھایا۔ کچھ کو پکارا، کچھ کو پچکارا۔ اور دھیرے دھیرے اکثر کو ایک ساتھ لا بٹھایا۔ کیا ہوا، اس پر بات ہوئی، کیا کیا جائے اس پر مشورہ ہوا۔ لوگوں کے ہوش اور حواس بحال ہوئے۔ دماغ نے کام کرنا شروع کیا اور یہ تاثر زائل ہونے لگا کہ پاکستان مسلم لیگ بکھر گئی۔ حکومتی پارٹی حکومت کے ساتھ اڑن چھو ہو گئی۔
اسی دوران مسلم لیگ میں مختلف اندازِ فکر کے حامل منی اور میگا رہنماﺅں کے بارے میں یہ واضح ہو گیا کہ کس کا جھکاﺅ کس طرف ہے۔ کون کہاں گرا ہوا ہے۔ کون اپنے پاﺅں پر کھڑا ہے۔ کون مسلم لیگ کے ساتھ ہے اور کون اقتدار لیگ کے ساتھ ۔ یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ کون کس کا وفادار ہے۔ کون کس کی بولی بولتا ہے۔ کون کس کے باٹ تولتا ہے۔ کون کس کا یار ہے اور کون غدار ہے۔ ان میں سے کسی کو موقع پرست کہا گیا۔ کسی کو مفاد پرست۔ کسی کو اعتدال پسند کا نام دیا گیا، کسی کو انتہا پسند کا۔ کسی کو سچا مسلم لیگی مانا گیا، کسی کو جھوٹا۔
ان سب چھوٹوں بڑوں اور جھوٹو ں سچوں کی کشمکش ابھی تک جاری ہے اور تاحال کوئی واضح خطِ تقسیم سامنے نہیں آیا کہ اس طرف یہ لو گ ہیں اور اس طرف وہ لوگ۔ سب آپس میں ملوث اور گتھے ہوئے ہیں۔ مصلحت، انتظار، ترغیب، ترہیب۔ کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔ اس تامل و توقف کا بڑا سبب یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی اور طبقاتی مفادات سے قطع نظر عملاً اس وقت مسلم لیگ کا کوئی واضح نقطۂ نظر سامنے نہیں آ رہا ہے۔ یہ بھی بس ایک سیاسی جماعت کی طرح ہے۔ سیاست کرتی ہے، لہٰذا، ملک کے مسائل کو سامنے رکھنا ہو گا۔ انہیں حل کرنے کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ اپنے مخالفین کی نسبت کچھ بہتر کارکردگی بھی دکھانی ہو گی۔ تب ہی اقتدار میں واپس آیا جا سکتا ہے، اور اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی حالات بھی سمیٹے جا سکتے ہیں۔ یہاں کی سیاست یہی ہے!
لیکن اب مسلم لیگ کچھ ہوش میں آ گئی ہے۔ انگڑائیاں لے رہی ہے۔ اس نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر لیا ہے۔ اپنے سرکردہ رہنماﺅں کی ”نجات“ کے لیے قانونی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔ گرچہ بہت سے دوسرے شکار زدگان کے لیے پارٹی کی سطح پر اب تک کوئی لائحۂ عمل تیار نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابھی تک افراتفری اور نفسانفسی موجود ہے۔ بہت سے لوگ جو اقتدار کے کھونٹے کے عادی ہیں، وہ تڑپ رہے ہیں اور دولتیاں مار رہے ہیں، تاکہ یہاں سے جان چھٹے، اور اقتدار کے دوسرے کھونٹے سے جا بندھیں۔ دوسرا کھونٹا گاڑنے اور اصطبل کی چار دیواری اسارنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ بھوکے پیاسے ارکانِ پارلیمنٹ اس طرف ناک اٹھائے کچھ سونگھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ اس طرف بھی کان لگائے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے، تب بھی کھونٹے سے بندھے رہیں اور ویسا ہو جائے تب بھی۔
مسلم لیگ کے اہلِ فکر اور اہلِ عمل لوگوں کے لیے یہ ایک موقع ہے سوچنے کا اور عمل کرنے کا۔ اس پارٹی نے بڑے بڑے بے لگام اداروں سے ٹکر لی ہے۔ بڑے بڑے مسائل کے حل پر ہاتھ ڈالا ہے۔ آئین میں بڑی ترمیمیں کی ہیں۔ اسے اپنی اس روش پر گامزن رہتے ہوئے ایک اور ”کارنامہ“ انجام دینے کے لیے کمربستہ ہونا چاہیے۔ یہ کارنامہ ہے قانون اور آئین کی بالا دستی اور حکمرانی کے نقطۂ نظر کو استوار اور رائج کرنے کا۔
12 اکتوبر 9919 سے قبل اور اس کے بعد بھی مسلم لیگ کے منی اور میگا رہنماﺅں اور عام مسلم لیگیوں میں فقط ایک تقسیم ہونی چاہیے تھی: آئین دشمن مسلم لیگی اور آئین دوست مسلم لیگی۔ اور اگر ایسا ہوتا تو مسلم لیگ کی قیادت پر یہ الزامات نہ لگائے جاتے، جو آج لگائے جارہے ہیں اور جن میں خاصی سچائی بھی موجود ہے۔ مسلم لیگ پہلے بھی قانون اور آئین کی بالادستی و حکمرانی کی علمبردار ہوتی اور آج بھی۔ یوں مسلم لیگی ارکانِ پارلیمنٹ اقتدار کے کھونٹے کے عادی نہ ہوتے اور آج مسلم لیگ ایک اکائی کی طرح منظم و متحد ہوتی۔ اس میں کل اور آج کوئی تقسیم ہوتی بھی تو یہ اقتدار کے اعتبار سے نہ ہوتی، بلکہ اس کا حوالہ آئین اور آئینی اقتدار اور قانون کی عملداری ہوتا۔
مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اڑھائی سالہ دورِ اقتدار میں اگر کسی مسلم لیگی نے ’بغاوت‘ کی بھی تو اس کی بنیاد میں کوئی نقطۂ نظر کار فرما نہیں تھا۔ یہ بغاوتیں نمک کی چٹانوں پر کھڑی تھیں۔ ابرِ کرم انہیں بہا لے گیا۔ کسی رکنِ پارلیمنٹ نے قانون اور آئین کی بات نہ کی۔ خواہ عدلیہ کا معاملہ تھا، خواہ سندھ کا، خواہ کسی صحافی کے اغوا کا، خواہ کوئی اور۔ کسی نے بھی اپنی قیادت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر احتجاج نہیں کیا۔ اگر ان کی تربیت اس نہج پر ہوتی تو وہ آج بھی قانون اور آئین کی بالادستی اور حکمرانی کی بات کرتے۔ وہ اقتدار کے کھونٹے نہ سونگھتے پھرتے۔ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوتے اور کھڑے رہتے۔ مراد یہ اگر مسلم لیگ اس وقت قانون اور آئین کی پاسداری کا نعرہ لگاتی اور خود اس پر عمل بھی کرتی تو آج نہ صرف اسے بہت سے قانون اور آئین پسند شہریوں کی حمایت حاصل ہوتی، بلکہ یہ خود بھی ایک حقیقی کاز کے لیے جد و جہد کرنے کے قابل ہوتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون اور آئین سے رجوع کرنے کا اس کا موقف بھی آ ج زیادہ جاندار ہوتا۔ جھوٹا کسی دوسرے جھوٹے کو جھوٹا کیسے کہہ سکتا ہے!
سو، آج اگر حالات مسلم لیگ کو ایک ایسے موڑ پر لے آئے ہیں، جہاں سے اپنی بقا کے لیے قانون اور آئین پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے تو اسے اس موقعے اور وقت کو غنیمت جان کر قانون اور آئین کی بالادستی اور حکمرانی کا نقطۂ نظر کھلے دل سے اپنانا چاہیے، اور اسے اپنی پارٹی اور معاشرے، دونوں، میں رائج کر نا چاہیے۔ یہی راستہ مسلم لیگ کو ”اقتداری جماعت“ کے طلسم کی بھول بھلیوں سے باہر لا سکتا ہے۔ اس راستے پر چل کر قانونی اور آئینی طاقت کے ساتھ مسلم لیگ کو اخلاقی قوت بھی حاصل ہو گی اور، یوں، ملک کو بھی۔
[یہ کالم 12 دسمبر 1999 کو مکمل ہوا، اور ہفت روزہ زندگی 25 تا 31 دسمبر 1999 کے شمارے میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں