پیر، 9 ستمبر، 2013

سیاست دان اور دل کی بات

فی الحال ماضی کو چھوڑے دیتے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جینرل مشرف، چیف آف آرمی سٹاف تھے، اور پاکستان کے صدر بھی۔ آدمی بادشاہ بھی ہو اور سپہ سالارِ اعظم بھی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ پھر جب سیاسی خانوادے، یعنی سیاسی پارٹیاں آپ کے آگے پیچھے پھر رہی ہوں؛ اور کسی میں اتنی جرأ ت نہ ہو کہ آپ کے سامنے حرفِ اختلاف لبوں پر لا سکے۔ جمہوریت کے دعوے دار رہنما آپ کی ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار بیٹھے ہوں۔ کتنے ہی آپ کے ساتھ شیر و شکر ہو چکے ہوں۔ اور جو نام نہاد جلا وطنی میں باہر بیٹھ کر جمہوریت کی خدمت کا بار اٹھانے کا احسان جتا رہے ہوں، وہ بھی موقع ملتے ہی آپ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر چڑھ بیٹھیں، اور پھر ایک ایسے معاہدے پر راضی ہو جائیں، جس کی نوعیت انتہائی مجرمانہ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہو۔ تو اس فضا ئے بے ضمیری میں، جینرل و صدر مشرف کچھ زیادہ ہی نشے میں دھُت ہو جائیں تو کچھ بعید نہیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ سارا پاکستان ان کے پاؤں میں پڑا ہے، وہ جو چاہیں، اور جیسے چاہیں کریں، انھیں کون پوچھنے والا ہے۔

اسی زعم میں انھوں نے اپنی صدارت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ سیاست دان تو انھیں سو سال تک صدر بنائے رکھنے پر مصر تھے، مگر انھیں خوف تھا کہ سپریم کورٹ سے اب انھیں مزید مہلت نہیں ملے گی۔ پرجس بات کا ڈر نہیں تھا، وہ ہو گئی۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ ہر قسم کی ترغیب و ترہیب ناکام ہو گئی۔ اب جینرل مشر ف کو سمجھ آئی کہ پاکستان میں ابھی کچھ نہ کچھ رمق باقی ہے، اور کوئی نہ کوئی ہے، جو لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ جسٹس چوہدری کا انکار قریب قریب پورے پاکستان کا انکار بن گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں خوف زدہ تھیں۔ وہ حیران و ششدر تھیں کہ ہمارے بغیر یہ تحریک کیسے مجتمع ہو گئی، اور اپنے پاؤں پر کھڑی بھی۔ تاہم، کیونکہ اکثر سیاسی پارٹیاں، عوام پسند ہوتی ہیں، یعنی وہ اُدھر چلتی ہیں، جدھر لوگوں کی ہوا چلتی ہے، سو ان میں سے کئی پارٹیاں اپنے کچھ کارکن ان جلوسوں میں بھیج دیتی تھیں، جو وکلا اور سول سوسائیٹی کی تنظیمیں باقاعدگی سے نکالا کرتی تھیں؛ تاکہ شہیدوں میں نام لکھوا لیا جائے۔

یہ تحریک کامیاب ہوئی، اور چیف جسٹس بحال ہو گئے۔ مگر جینر ل مشرف اب بھی تخت پر متمکن تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اکتوبر 2007 میں نئی سول جمہوری آئینی پارلیمان نے انھیں ایک مرتبہ پھر صدر منتخب کر لیا۔ تاہم، انھوں نے موقع ملتے ہی پھر وار کیا، اور نومبر 2007 میں ایمرجینسی نما مارشل لا نافذ کر دیا۔ یہ براہِ راست عدلیہ اور میڈیا دونوں پر حملہ تھا۔ یہی دونوں ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔ اب ایک نئی تحریک کا ڈول ڈلا۔ اس تحریک نے طوالت کھینچی۔ کئی مرحلے ایسے آئے کہ لگتا تھا، مقدر ناکامی لکھا جا چکا۔ ایمرجینسی کے نفاذ کے وقت جینرل مشرف چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے اور صدر بھی۔ اسی اثنا میں ججوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ تحریک کا زور اس بات پر بھی تھا کہ جینرل مشرف وردی اتاریں اور استعفیٰ دیں۔ اسی نومبر میں انھیں اپنی فوجی وردی، جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے، اتارنی پڑی۔ اب وہ صرف صدر تھے۔

پھر جلاوطن سیاسی رہنما واپس ملک پدھارے۔ بے نظیر بھٹو نے تحریک کا جوش و جذبہ دیکھا تو للچا گئیں، اور چیف جسٹس کے در پر حاضری دی۔ نواز شریف آئے تو انھوں نے بھی تحریک کے تیور دیکھ کر اپنی پارٹی کو اس تحریک کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب انتخابات سر پر تھے کہ ایک نہایت جانکاہ حادثہ ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور آصف علی زرداری نے تھام لی۔ انتخابات ہوئے اور پیپلزپارٹی کی رہنمائی میں مخلوط حکومت بنی۔ مگر پیپلز پارٹی معزول ججوں کی بحالی کے وعدے کو التوا میں ڈالتی رہی۔ پھر ججوں کی بحالی سے صاف مُکر گئی۔ معزول جج ابھی تک بحال نہیں ہوئے تھے۔ چونکہ اب سیاست دان حکمران تھے، وہ بھی یہ چاہنے لگے کہ صدر مشرف، صدارت سے بھی استعفیٰ دیں۔ اس پر بڑی لے دے ہوتی رہی۔ پھر یہ ہو کر رہا۔ جینرل صدر مشرف نہ جینرل رہے، نہ صدر۔ استعفیٰ دے کر انھیں ملک بھی چھوڑنا پڑا۔ ان کی جگہ آصف علی زرداری عہدۂ صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔ معزول عدلیہ کا معاملہ ابھی تک پیپلز پارٹی کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر بنا ہوا تھا۔ اب مسلم لیگ (ن) کچھ شش و پنج سے گزر کر آخراً اپنی پوری طاقت سمیت معزول ججوں کی بحالی کے لیے وکلا اور سول سوسائیٹی کی حمایت پر نکل آئی ۔ کچھ دوسری جماعتیں بھی ہمراہی بن گئیں۔ لانگ مارچ ہوا، اور پیپلز پارٹی کو نہ چاہتے ہوئے بھی معزول جج بحال کرنے پڑے۔

اس کہانی کا اہم موڑ یہ ہے کہ جینرل مشرف، جو اب نہ جینرل تھے، نہ صدر، جب انھوں نے استعفیٰ دیا تو انھیں باقاعدہ اور مکمل گارڈ آف آنر دیا گیا۔ سول سوسائیٹی اور میڈیا نے تو سوال اٹھانے تھے، اور میڈیا نے کچھ جواب تلاش بھی کیے۔ مگر سیاست دان، جو اس وقت کھیل کا حصہ تھے، سب خاموش رہے۔ جیسے ان کے منہ میں گھنگھنیاں ڈال دی گئی ہوں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)، عوامی نیشنل پارٹی، اور حزبِ اختلاف میں سے مسلم لیگ (ن) سمیت سب چپ تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی بھی لیڈر شہریوں اور اپنے ووٹروں کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتا۔ تو یہ کیا کھیل تھا۔ اسے شہریوں سے کیوں چھپایا گیا۔ اس میں ایسی کیا چیز تھی، جو شہریوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی۔ وہ شخص جس نے دو مرتبہ آئین معطل کیا، اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو محبوس رکھا، بجائے اس کے کہ اسے جواب دہ بنایا جاتا، اسے گارڈ آف آنر دینے کے ساتھ ساتھ با عزت انداز میں ملک سے رخصت ہونے دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا۔ یقینا سیاست دان، اور بالخصوص پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈر اس لین دین میں ملوث تھے۔ بالکل ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن)، اور دوسری پارٹیاں بھی اس لین دین سے نہ صرف باخبر ہوں، بلکہ اس کا حصہ رہی ہوں۔ مگر ان تمام میں سے کسی نے بھی شہریوں کو اپنے دل کی بات نہیں بتائی۔

اب پانچ برس پردیسی جنت میں گزار کر جینرل مشرف (ر) پھر پاکستان وارد ہو گئے ہیں، اور انتخاب لڑنے پر اتارو ہیں۔ وہ جب تک باہر تھے، سیاسی پارٹیاں ان پر مقدمہ قائم کرنے اور ان کا احتساب کرنے کی بات کرتی تھیں۔ مگر جب وہ حقیقتاً پاکستان میں آ موجود ہوئے ہیں، سب نے اپنے لب سی لیے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اس وقت، جو بھی جیسی بھی ”ڈیل“ ہوئی، اس کی بڑی فریق تھی، کیونکہ یہ حکمران پارٹی تھی۔ لیکن جو پارٹیاں اچھل اچھل کر جینرل مشرف کوآئین کی دفعہ- 6 کے تحت آزمانے کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتی تھیں، اب سب نگاہیں نیچے کیے بیٹھی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ سرگرم پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جو مشرف کو نشانِ عبرت بنانے کا شور مچاتی تھی، اب یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ جینرل مشرف کو جانتی ہی نہیں۔ ایک مرتبہ پھر میڈیا اپنی خبریں لانے میں مصروف ہے۔ مگر سیاست دان، ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر شہریوں سے کچھ نہ کچھ ہے، جسے چھپا رہے ہیں۔ وہ شہریوں اور ووٹروں پر اعتماد نہیں کر رہے۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ کوئی ”ڈیل“ موجود ہے، اور اس کے پیچھے بڑے بڑے سرپرست بھی موجود ہیں، جس کے نتیجے میں جینرل مشرف تشریف لائے ہیں۔ پر یہ ”ڈیل“ کیا ہے، سیاست دان، شہریوں اور ووٹروں کو بتانے پر تیا رنہیں۔

قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سیاست دانوں پر کوئی دباؤ ہے، اور انھیں مجبور کیا گیا ہے۔ لیکن اگر وہ شہریوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے، اور اسی طرح ”نادیدہ قوتوں“ کے دباؤ میں آتے رہیں گے تو وہ کبھی اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ جبکہ یہ ایک بین حقیقت ہے کہ اس کی ذمے داری ان پر ڈالی جائے گی، نادیدہ قوتوں پر نہیں۔ مراد یہ کہ اگر آئین کے ایک مجرم کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا تو اس کے ذمے دار سیاسی لیدڑ قرار دیے جائیں گے۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ شہریوں اور ووٹروں پر اعتماد کریں، اور انھیں اپنے دل کی بات بتائیں۔ انھیں چاہیے کہ شہریوں اور ووٹروں پر بھروسہ کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں، جو انھیں حکمران بناتے ہیں۔ یہ انھیں شہریوں کی طاقت ہے، جو انھیں آئینی اور قانونی طاقت کا حامل بناتی ہے۔ اگر وہ شہریوں کے بجائے اپنی طاقت ”نادیدہ قوتوں“ سے مانگ تانگ کر گزارہ کریں گے تو ذمے داری اٹھانے کے لیے بھی تیار رہیں۔ اس طرح، وہ جینرل مشرف (ر) کی طرح، آئین اورقانون دونوں کے مجرم ٹھہریں گے!


[یہ کالم 11 اپریل کو روزنامہ مشرق پشاور میں شائع ہوا۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں