اکتوبر 1999 کا پاکستان یاد کیجیے۔ یہاں 12 اکتوبر کو وہی کچھ ہوا، جو مصر میں 4 جولائی کو ہوا۔ مصر کی فوجی اشرافیہ نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پاکستان میں اس وقت جینرل مشرف کے فوجی انقلاب کو یہاں کے لبرل اور روشن خیال طبقات، ترقی پسندوں اور مختلف دھڑوں کے اشتراکیوں نے خوش آمدید کہا تھا۔ انھوں نے اس انقلاب کے داعی جینرل مشرف کے ظاہری لبرل اور اعتدال پسندانہ طرزِ فکراور طرزِ حیات میں اپنی امیدوں کو سمو دیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی لاعلاج مریض صحت یاب ہونے کے لیے ہر نسخہ آزمانے کو تیار رہتا ہے؛ خواہ یہ اسے موت سے قریب تر ہی کیوں نہ کر دے۔ مصر میں بھی ایک مفہوم میں اسی پاکستانی فوجی انقلاب کو دہرایا گیا ہے۔ جینرل عبدالفتح السیسی کے فوجی انقلاب کو اخوان المسلمون اور مُرسی کے مخالفین،اور مصر کے لبرل طبقات کی حمایت حاصل ہے۔ یہ قیاس اتنا غلط نہیں ہو گا کہ مصر میں فوجی اشرافیہ کا اقدام، مصر کو بہت پیچھے لے جائے گا، اور اخوان المسلمون کے حامیوں کو مزید تقویت بخشے گا۔ اس ضمن میں یہ سبق اہم ہے کہ اصولوں کو کبھی پسِ پشت نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ انسانی سوسائیٹی فوری اور عارضی نوع کے نسخوں کی مدد سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے لیے طویل اور صبر آزما جد و جہد کے علاوہ کوئی مختصر راستہ دستیاب نہیں۔
کہنے سے مراد یہ ہے کہ برے سے برے حالات کو بھی فوجی یا کسی اور ایسے ہی اقدام کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ جہاں تک پاکستا ن کا تعلق ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہاں کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ دونوں نے کچھ نہ کچھ سبق سیکھ لیا ہے۔ اس میں یہاں کی سول سوسائیٹی بھی شامل ہے۔ گذشتہ پانچ برس پیپلز پارٹی کی جو حکومت برسرِ اقتدار رہی، اس نے ملک کو جی بھر کر لوٹا، اداروں کو تہس نہس کیا، آئین اور قانون، اور اخلاقیات کا مضحکہ اڑایا۔ غالباً پاکستان کا ماضی ایسی بد اعمال حکومت کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ تاہم، اس کے باوجود کہیں سے کوئی طاقت ور آواز بلند نہیں ہوئی کہ فوج، حکومت کا تختہ الٹ دے؛ جبکہ قبل ازیں ایسے مطالبات ایک دستور رہے ہیں۔ اس چیز نے بھی پاکستان کے جینرلوں کو کسی طالع آزمائی سے دور رکھا ہے۔ مصرکی سول سوسائیٹی اور سیاسی عناصر کو ابھی یہ سبق سیکھنا ہے: غیر سیاسی اورغیر جمہوری حل، حل نہیں ہوتے؛ یہ سوسائیٹی کے لیے انتہائی خطرناک زہر کا درجہ رکھتے ہیں، جو بتدریج اور آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے، اور سوسائیٹی کی رگوں میں بیٹھ جاتا ہے۔
یہاں میں دو ایسے مصنفین سے رجو ع لانا چاہوں گا، جن کی داخلی شہادت مصر کے بگڑتے حالات اور فوجی انقلاب کی حرکیات کو کھول کر بیان کرتی ہے۔ ایک ہیں ڈاکٹر نوح الہرمزی، اوردوسرے ہیں ڈاکٹر علی مسعود۔ ڈاکٹر نوح، مراکش میں ابن طفیل یونیورسیٹی اور ڈاکٹر مسعود، مصر میں سہاج یونیورسیٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر مسعود سے ایک سال قبل مراکش میں ایک کانفرینس میں، جبکہ ڈاکٹر نوح سے کئی ممالک میں مختلف کانفرینسوں میں ملنا ہوا۔ ڈاکٹر نوح نے مصر کے بارے میں جو کچھ بتایا، وہ ہم پاکستانیوں کے لیے نہایت حیران کن ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حسنی مبارک کے دور میں اگر کوئی ٹیچر اپنی کلاس میں ان کے بارے میں کوئی غلط الفاظ ادا کر دیتا تو اسے ہمیشہ کے لیے نااہل کر دیا جاتا تھا۔ یعنی حسنی مبارک کا دور، جبر و استبداد کا نمونہ تھا۔ اسے وہاں کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ کا اتحادی دور کہا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر نوح اور ڈاکٹر مسعود نے فوجی انقلاب سے چند روز قبل ایک مضمون لکھا تھا، جو دس زبانوں میں ترجمہ ہو کر چھپ چکا ہے۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ کچھ تو تھا، جو مصر کے ایک کروڑ ستر لاکھ شہریوں کو سڑکو ں پر لے آیا۔ دو کروڑ بیس لاکھ شہریوں نے مرسی کی حکومت کے خلاف مذمتی قرارداد پر دستخط کیے۔ مصر کی گراس روٹس تحریک ”تمرّد“ (باغی) کی ویب سائیٹ پر یہ مطالبہ کیا گیا کہ مرسی 2 جولائی شام پانچ بجے تک حکومت چھوڑ دیں اور فوری انتخابات ہونے دیں، ورنہ مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار ہو جائیں۔ مصری فوج کو یہ انتباہ کیوں کرنا پڑا کہ حکومت اڑتالیس گھنٹو ں میں بحران کا تصفیہ کرے، ورنہ وہ حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔ مصنفین کے مطابق مصری بحران کی جڑیں مرسی حکومت کی ناکام معاشی اور سیاسی پالیسیوں میں پیوست ہیں، جن میں شخصی اور معاشی آزادی کا فقدان شامل ہے۔ اصل میں مرسی کے تحت ملک میں گیسولین اور زندگی کی بنیادی ضروریات عدم دستیاب ہو گئیں۔ ان کے حصول کے لیے طویل قطاریں معمول بن گئیں۔ یوں، ہڑتالیں اور فسادات بھڑک اٹھے، جن کے نتیجے میں55 شہری ہلاک اور 700 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس کا سبب یقیناً مرسی کی مارکیٹ دشمن پالیسیا ں تھیں، جنھوں نے ملک میں روزمرہ کی اشیا کی کمی پیدا کر دی۔
مرسی کے تحت معیشت بد سے بد تر ہوتی گئی۔ مالی سال 2012 میں افزائش کی شرح کم ہو کر 2.2 رہ گئی۔ جبکہ حسنی مبارک کے زوال کے بعد 2010-2009 میں یہ 5.1 تھی۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مصری پاؤنڈ کی قدر12.5 فیصد گری۔ شرحِ افزائش میں کمی سے آٹھ کروڑ پچیس لاکھ آبادی کے اس ملک میں بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس وقت تین کروڑ تیس لاکھ یا 13 فیصد لوگ بے روزگار ہیں، اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بیس سے چوبیس سال عمر کی 46.4 فیصد آبادی کو روزگار ڈھونڈے نہیں ملتا۔ 43 فیصد مصری، دو ڈالر فی دن کے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ حکومت کا بجٹ خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، اورخام ملکی پیداوار کے 10.8 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ بہ ایں وجہ،حکومت، فلاکت زدہ شہریوں کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ نتیجے کے طور پر براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، سیاحت میں کمی اورعمومی سیاسی عدم استحکام نے معیشت کے پہیے کو آہستہ رو کر دیا ہے۔
اس معاشی ناکامی کی ذمے دار بدتر معاشی پالیسیاں ہیں، جن میں ہمہ گیر بد عنوانی اور مسابقت کی کمی نمایاں ہیں۔ عالمی مسابقتی رپورٹ میں مصر 142 ملکوں میں سے 94 ویں درجے پر ہے۔ مثال کے طور پر خطیر اعانتوں (سبسیڈیز) نے ملک بھر میں روٹی اور گیسولین کی منتقلی کو سست تر کر دیا ہے؛ جس سے دونوں اشیا کی دستیابی میں کمی واقع ہوئی، اور یوں لوگوں میں حکومت کے خلاف غم و غصہ بڑھا۔ صدر مرسی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حکومت میں آ کر سو دنوں کے اندر یہ مسائل حل کر دیں گے، مگر انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ میرے دونوں مصنف دوست واضح کرتے ہیں کہ مسئلہ صرف معاشی نہیں۔ مرسی کی سیاسی ناکامیوں نے مصر کو ایک نازک صورتِ حال سے دوچار کر دیا۔ مرسی نے جن افراد کا تقرر وزیروں، گورنروں، اور دوسرے اعلیٰ افسروں کے طور پر کیا، قریب قریب ان سب کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے۔ یوں وہ سب افراد بیگانگی کا شکار ہو گئے، جو مرسی کی ”اسلامی حکومت“ سے خوش نہیں۔ مرسی نے یک طرفہ انداز میں اپنے اختیارات میں اضافہ بھی کیا۔ مثلاً انھوں نے تحریر و تقریر کی آزادی اور پریس پر قدغنیں عائد کیں۔ ان معاشی اور سیاسی جارحیتوں کے سبب مرسی کی حکومت پر مصریوں کا اعتماد اٹھ گیا۔ آئندہ کیا ہو گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ مگر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر آئندہ حکومت شخصی آزادی اور آزاد کاروبار پر لگائی گئی پابندیاں نہیں ہٹاتی، حکومتی کنٹرول میں کمی نہیں لاتی اور اعانتوں کے نظام کو ختم نہیں کرتی تو یہ بھی مرسی حکومت کی طرح ناکام ہو جائے گی۔
میرے دونوں مصنف دوستوں کے مضمون سے یوں عیاں ہوتا ہے، جیسے فوجی اشرافیہ اور” تمرد“ کا انتباہ، مرسی انتظامیہ کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ مگر میں اپنے دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ کسی چیز کا کوئی بھی نتیجہ سامنے آ سکتا ہے۔ یہ انسانی فکر اور تعصب ہوتا ہے، جو کسی اچھے یا برے کام کو اچھے یا برے نتیجے سے جوڑ تا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں اب فوجی انقلاب کا امکان معدوم ہو چکا ہے، لیکن اگر یہاں فوجی انقلاب آ جاتا ہے تو ہمیں اسے سیاست دانوں کی بد اعمالیوں کا نتیجہ نہیں کہنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا سمجھتے اور کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان دونوں میں سبب اور نتیجے کا تعلق قائم کر رہے ہیں، جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں فوجی اشرافیہ، ریاست پر اپنا قبضہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظر میں ہر چیز ہر بات فوجی انقلاب لانے کا جواز بن سکتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اور آج مصر میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
[یہ کالم 27 جولائی کو روزنامہ مشرق پشاورـ اسلام آباد میں شائع ہوا۔]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں