اردو، پنجابی اور انگریزی زبانیں میرے خون میں شامل ہیں۔
اردو اور پنجابی تو ایسے ہیں، جیسے یہ خون میں بولتی ہوں۔ جبکہ،
انگریزی اس طرح خون کا حصہ نہیں، جیسے اردو اور پنجابی رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں،
اور آنکھ سے خون کی طرح ٹپکتی بھی ہیں۔
انگریزی اس طرح ہے، جیسے کسی کو تقویت دینے کے لیے خون لگایا جاتا ہے۔
یہ خون تولگ گیا، مگر جب انگریزی پڑھی تو اس نے دل موہ لیا۔ کیا انداز ہے اس زبان
کا۔ اور جو کچھ اس زبان میں لکھا گیا اور جو کچھ اس زبان میں پڑھنے کو دستیاب ہے،
اس نے تو زندگی کو مفہوم و معنی سے آشنا کر دیا۔ بلکہ ایک نئی زندگی سے معمور کر
دیا۔
رضا علی عابدی سیدھے سادھے انداز میں بات کہتے ہیں۔ آج (6 ستمبر، 2013) کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ان کا کالم کچھ اردو
زبان کے گن گاتا ہے۔ آپ بھی دیکھیے:
’’اردو عجب زبان ہے۔ قدم قدم پر حیران کرتی ہے۔ میں ہمالیہ کے اوپر
اڑتا ہوا لداخ میں اترا اور جیپ پر بیٹھ کر چینی تبت کی جانب بڑھا۔ اتنا آگے تک
گیا کہ بھارتی فوج نے مزید آگے جانے سے روک دیا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں وہی تبتی
ناک نقشے والے چرواہے ملے۔ اب الجھن یہ تھی کہ ان سے کس زبان میں بات کی جائے۔ میں
نے یوں ہی آزمانے کے لیے پوچھا، آپ کیسے ہیں؟ نہایت سلیس اردو میں جواب ملا، جی آپ
کی دعا سے یہاں سب خیریت ہے۔
ایسے خوشگوار لمحے میری راہ میں کئی بار مجھ سے بغل گیر ہوئے ہیں اور
ہر بار مجھے استاد داغ کی یاد دلاتے رہے ہیں جن پر غالباً انیسویں صدی کے آخر میں
یہ مضمون شاید غیب سے نہیں اترا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب غیب سے خیال میں مضامین بھیجنے والے نے
دوسرا مصرعہ درست کیا:
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ دھوم ہے اور خوب خوب ہے۔ اب چاہے کوئی اسے
ہندی کہے یا ہندوستانی۔ ہماری ہندی زبان کی ایک ساتھی براڈ کاسٹر نے ایک روز بتایا
کہ انہوں نے ایک ڈرامہ لکھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہندی میں لکھا ہے۔ بولیں
نہیں، وہی عام بول چال میں۔
ہماری طرف اسی بول چال کو اردو کہتے ہیں جس کے بارے میں ہم سب کے
استاد فرمان فتح پوری یہ کہتے کہتے جنت کو سدھارے کہ یہ واحد زبان ہے جس کے ساتھ
کسی ملک یا علاقے کا نام نہیں لگا ہوا ہے۔ اس زبان کو برتنے والے خوب جانتے ہیں کہ
جو حسن وملاحت عام بول چال والی زبان میں ہے وہ بڑے بڑے جید علما اور کی بولی اور
تحریر میں کہاں۔ جس زبان میں عربی کا شکوہ، فارسی کی نفاست اور ہندی کا تیکھا پن ہو اور جس کے سارے کے سارے
افعال (وربز) سرزمین کی مٹی میں گوندھے گئے ہوں کہ جن کے بغیر حرکت ممکن نہیں، وہ
کسی مخصوص علاقے کی بولی نہیں ہو سکتی۔ وہ قدم قدم پر حیران نہ کرے تو اور زیادہ
حیرت ہو۔‘‘
پورا کالم ملاحظہ کیجیے:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں