جمعہ، 6 ستمبر، 2013

زوال کے نشان

اگر کوئی مورخ زوال اور اس کی حرکیات کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو پاکستانی سوسائیٹی سے بہتر نفسِ مضمون اسے شاید ہی کہیں مل سکتا ہو ۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ جیسے نفسیاتی مطالعے کے لیے پاکستانیوں سے بہتر کیس کہاں پائے جا سکتے ہیں ۔ پاکستان، ہر نباض کے لیے ایک ایسا ماڈیل بن چکا ہے، جس کو زوال کے نشانوں کی تشخیص اور تعلیم کے لیے ایک مکمل نمونے کی حیثیت سے کام میں لایا جا سکتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ صرف موجود ہ پاکستان، بلکہ غالباً پاکستان اپنے پورے ساٹھ پینسٹھ سال یہی نمونہ بنا رہا ہے ۔ کیا کوئی ایسا دور یا عرصہ ہے، جسے نکال کر سامنے رکھا جا سکتا ہو کہ بھئی یہ ہے ایک ایسا پاکستان، جوزوال کی مثال نہیں ۔

میں خود اس سوسائیٹی کا ناقابلِ علیٰحدہ جزو ہوں؛ لیکن میں اس کا مشاہد، یعنی اس سے علیٰحدہ، اس کا مشاہدہ کرنے والا بھی ہوں ۔ میں پاکستانی سوسائیٹی کے ہمہ گیر زوال کو محسوس کرتا ہوں؛ مراد یہ کہ میں ہر روزاس ہمہ گیر زوال کو سونگھتا ہوں، چکھتا ہوں، چھوتا ہوں، سنتا ہوں، اور دیکھتا ہوں ۔

جہاں تک میری فہم کا تعلق ہے، زوال کاایک واضح نشان یہ ہے: کوئی بھی شے، جو ایک مخصوص مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے، وہ اسی مقصد کے خلاف کام کرنا شروع کر دیتی ہے ۔

میرے ذہن میں یہ خیال بہت عرصہ کلبلاتا رہا ہے ۔ اگر ایک شے’الف‘، مقصد ’بے‘ کی تکمیل کے لیے تخلیق کی جاتی ہے، اور اگر یہ اس مقصد ’بے‘ سے انحراف کرنا شروع کر دے، اور مقصد ’جیم‘ کے لیے کام کرنے لگے، تو کیا ہو گا ۔ بلاشبہ، اپنے اصل مقصد ’بے‘ سے عاری ہو کر شے ’الف‘ اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھے گی، کیونکہ ’جیم‘ اس کے وجود کا مقصد نہیں ہے ۔ اور یہ چیز اس کے زوال کو حرکت میں لے آئے گی ۔

پاکستانی سوسائیٹی اس چیز کی خاص مثال ہے، اور اس فہرست میں سے میں، صرف موجودہ سپریم کورٹ کو منہا کر وں گا ۔ پاکستا ن میں کوئی ایسے ادارے یا وجود، موجود نہیں، جہاں زوال کے نشان جلی حروف میں لکھے نہ دیکھے جا سکتے ہوں ۔ ریاستی، اور نیم ریاستی اداروں، اور ایسے ہی دوسرے سرکاری اور نجی دونوں طرح کے موجودات کے ساتھ ساتھ، اس فہرست میں باغات، پارکس، جانور گھر، وغیرہ، وغیرہ، بہت کچھ شامل ہے ۔

زوال نے ہر ادارے، ہر وجود، اور یقینا ،نظامِ اقدار، اور مذہب و سیاست کو بھی اپنے حصار میں لے لیا ہوا ہے ۔

زوال کا ایک اور نشان، جوزوال کی پاکستانی مثال کے جائزے سے سامنے آتا ہے، زبان کی خرابی ہے ۔ مرا د یہ کہ سوسائیٹی کی زبان، یا زبانیں، خراب ہو جاتی ہیں ۔ میر ی مراد تحریری زبانوں سے ہے ۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ابلاغ اور علم کی بڑی زبان بگڑ جاتی ہے ۔

پاکستان میں ابلاغ، اخبارات، رسالوں، جریدوں، نصابی و نیم نصابی کتابوں، اور عمومی کتابوں کی زبا ن بھی معیاری زبان کی سطح سے کہیں نیچے گر چکی ہے ۔

اس ضمن میں صرف ایک مثال کافی ہوگی ۔ جیوٹی وی، اور جنگ گروپ، مختلف اداروں کا کتنا بڑا مجموعہ ہے ۔ حال ہی میں انھوں نے ”جیو اصول“ ایک مہم شروع کی ہوئی تھی ۔ نہ صرف بولنے میں اس کا تلفظ، اُصول کی جگہ، اَصول کیا جاتا ہے، اور اب بھی یہی تلفظ بولا جا رہا ہے؛ بلکہ لکھا بھی یہی جا تا ہے ۔ چلیں جب اسے اردو میں لکھا جاتا ہے تو اس پر زبر یہ پیش نہیں ڈالا جاتا، اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ اسے اَصول لکھا گیا ہے، یا اُصول ۔ لیکن اسے رومن اردو میں لکھا جاتا ہے، اور یوں یہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ اس کا تلفظ اُصول کی جگہ اَصول کیا رہا ہے ۔

اداروں کے اتنے بڑے مجموعے میں کیا کوئی ایسا موجود نہیں، جسے درست تلفظ معلوم ہو ۔ یا جیو اور جنگ میں کوئی ایسا نہیں، جو یہ تصحیح کر وادے ۔ یا کوئی ایسا نہیں، جو کوئی لغت ہی اٹھا کر دیکھ لے ۔ جبکہ جیو ٹی وی کے ایک پاپولر پروگرام، ”خبر ناک“ کے میزبان آفتا ب اقبال نے تو اردو کی مستند لغت، ”فرہنگِ آصفیہ“ کو پورے پاکستان میں معروف کر دیا ہے ۔ تو کیا پورے جیو اورجنگ اور اس سے جڑے اور بہت سے اداروں میں ”فرہنگِ آصفیہ“ کہیں وجود نہیں رکھتی ۔

فرہنگِ آصفیہ کے مطابق اصول میں الف پر بھی پیش ہے، اور صواد پر بھی پیش ہے: اُصُول ۔

ایسے ہزاروں سوال ہیں، جو یہاں وہاں چلتے پھرتے، لکھتے پڑھتے، لاکھوں مواقع پر سر اٹھاتے ہیں ۔ لیکن زوال کا عفریت، ان کے سر اڑا دیتا ہے ۔

کافی سال قبل، جب میں پاک ٹی ہاؤس جایا کرتا تھا، جہاں اہلِ ادب اور دانشور اکٹھے ہوتے تھے، مظفر علی سید، جو ایک جید نقاد تھے، اور مجھے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا ۔ بلکہ جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تھی، وہ رات نو بجے ٹی ہاؤس بند ہونے کے بعد بھی اس کے باہر میرے ساتھ کھڑے باتیں کرتے رہتے تھے ۔ جب ایک مرتبہ یہی زبان کے بگاڑ کا معاملہ زیرِ بحث تھا، تو انھوں نے کہا: ایک پی ایچ ڈی جو زبان لکھتا ہے، اور میڑک کا سٹوڈینٹ جو زبان لکھتا ہے، اس میں کوئی فرق نہیں ۔ یہ اردو زبان کے ڈاکٹروں کی طرف اشارہ تھا ۔

زوال کا ایک اور نشان ۔ ۔ ۔ ، اور اس کا تعلق زیادہ تر فکری اقلیم سے ہے، لیکن یہ اس اقلیم تک محدود نہیں، میری مراد ہے کہ فکری زوال کا سبب کیا ہوتا ہے؛ یا یہ کہ فکری روح کیوں مرجاتی ہے ۔ کسی بھی سوسائیٹی میں، جیسا کہ پاکستان میں ہے، جب عقل اور دلیل کو ان کے جائز مقام سے محروم کر دیا جائے تو فکر ی روح گھُٹ کر رہ جاتی ہے ۔ ایسے میں جس چیز کو قدرومنزلت کا حامل سمجھا جاتا ہے، وہ ہے سند، یا اتھاریٹی ۔ ایسے میں” کون“ کیا کہہ رہا ہے اہم ہو جاتا ہے، اور وہ ”کیا“ کہہ رہا ہے غیر اہم ہو جاتا ہے ۔

یہ رویہ، شخصیات کو مقدس بنا کر شخصیت پرستی کو رواج دیتا ہے، اور فکری ارتقا کو روک دیتا ہے، یا اسے خاصی حد تک محدود کر دیتا ہے ۔ چونکہ وہ شخصیات، جو سند یا اتھاریٹی کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں، بالعموم انھیں یہ مرتبہ عقل ودلیل پر مبنی محنتِ شاقہ کے نتیجے میں نہیں ملا ہوتا، بلکہ اس کا سبب دوسرے ذرائع یا اثر ورسوخ، یا تعلقات ہوتے ہیں، یوں فکری ارتقا، یا جس بھی شعبے میں ایسا ہو رہا ہو، وہ ایک جوئے کا کھیل بن جاتا ہے ۔

اگر کوئی اچھی شخصیت، سند کے اس مرتبے تک پہنچ گئی، تو بہت خوب، اوراگر نہیں، تو یہ صرف برا نہیں، بلکہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر ایسا کوئی شخص ایسے مقام پر پہنچ جائے تو نہ صرف وہ وہاں ٹکے رہنے کے لیے، بلکہ اس بات کا پورا اہتمام کرنے کے لیے سب کچھ کر گزرے گا کہ کوئی ایسا اس مقام پر نہ پہنچ سکے، جسے اس کی آشیر باد حاصل نہ ہو یا جسے اس نے اس مرتبے کا اہل قرار نہ دیا ہو ۔

ایک دفعہ، جس کالج میں، میں پڑھاتا تھا، اس کی طرف سے ممتاز ماہرِ تعلیم، بختیار حسین صدیقی کا انٹر ویو کرنے کا موقع ملا ۔ پاکستان میں تعلیم کے زوال پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: جیسے، اگر کوئی نااہل شخص، کسی نہ کسی طرح کسی کالج کے پرنسپل کا عہدہ حاصل کر لیتا ہے تو وہ کسی اہل شخص کو اس کالج کا حصہ نہیں بننے دے گا ۔

یہ وہی چیز ہے، جسے میرٹ کے قتل کا نام دیا جاتا ہے ۔

انتظار حسین نے، جو ایک ناول نگار، افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ نقاد اور ادبی مفکر بھی ہیں، گذشتہ برس یکم جنوری کو روزنامہ ایکسپریس میں ایک کالم بعنوان، ”دلیل کی موت، نعرے کا بول بالا“ لکھا تھا ۔ تو دلیل کی تو موت کب کی ہو چکی، اور زوال کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہوگی ۔

اور زبان کے بگاڑ کو دیکھنا ہے تو اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ خود بخود آنکھیں پھاڑے ہر گا م پر آپ کو دیکھ رہا ہے ۔

یہ ہیں زوال کے چند نشان، جو پاکستا ن کے زوال میں بہت نمایا ں طور پر موجود ہیں ۔ یقیناً، یہ فہرست مکمل نہیں ۔ بلکہ یہ وہ نشان ہیں، جو پاکستان کے چہرے پر جلی حروف میں درج دیکھے جا سکتے ہیں ۔

میں پاکستانی سوسائیٹی کے زوال پر متوجہ رہوں گا، اور یہ، میری غور وفکر کا مرکز بھی رہے گا، اورمیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید خیالات یہاں درج کرتا رہوں گا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں