جمعہ، 6 ستمبر، 2013

کراچی کے سوداگر

ایک پاگل دوسر ے پاگل سے کہتا ہے: ”میں سوچ رہا ہوں، لاہور خرید لوں ۔“ دوسرا پاگل جواب دیتا ہے: ”میں بیچوں گا تو تم خریدو گے ۔“

لاہور بِکا یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں، لیکن کراچی بِک گیا ہے ۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ کس نے بیچا، کس نے خریدا ۔ سب کو پتہ ہے ۔ سیاسی بازار میں کون کون سے خریدار کس کس مارکیٹ میں موجود ہیں، اور فروخت کرنے والے، یا فروخت کا اختیار رکھنے والے کہاں کہاں پائے جاتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔

رئیل ایسٹیٹ کی مارکیٹ میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی جائیداد کی خرید وفروخت کے سلسلے میں ”حق شفعہ“ سے بچنے کے لیے دونوں فریق بڑی خاموشی سے سودا کر لیتے ہیں ۔ اس سودے کی خبر اردگرد تب پھیلتی ہے، جب ایک صبح اس جائیداد پر نئے مالک قابض ہو چکے ہوتے ہیں ۔ یہی کچھ کراچی کے ضمن میں ہوا ۔ رات کی تاریکی میں ”سندھ پیپلز لوکل گورنمینٹ آرڈینینس 2012“ دستخط ہوا ۔ ایسا کیا ہنگا م آ گیا تھا کہ اسیمبلی کی موجودگی کے باوجود آرڈینینس لانا پڑا ۔ بہت سی توجیہات کی جارہی ہیں، اور کی جا سکتی ہیں ۔ مگر مجھے ان سے غرض نہیں ۔ یہ سب پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں ۔

بات یہ ہے کہ جیسے کوئی جھوٹی یا سچی خبر ”اندر کی خبر“ قرار دے کر پھیلا دی جاتی ہے کہ ایک خاص علاقے میں پراپرٹی کی قیمتیں چڑھنے والی ہیں اور سرمایہ کار دوڑ پڑتے ہیں، اسی طرح، گو کہ یہ کوئی اندر کی خبر تو نہیں، ایک آئینی تقاضا ہے کہ پانچ برس بعد انتخابات ہوں، لیکن بہر حال یہ خبر اقتدارکے خریداروں کے لیے قیامت کی خبر ہے، لہٰذا، اس نے ان سیاسی عناصر میں زیادہ بے چینی پیدا کردی ہے، جو ہر حال میں کراچی پر اپنی گرفت ٹائیٹ رکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی شتابی نے یہ آرڈینینس کا کھیل دکھایا ہے ۔ ووٹوں کی منڈی جو لگنے والی ہے ۔ اسے ”میلہ مویشیاں“ کے وزن پر ”میلہ ووٹراں“ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی اپنی پوزیشنیں مضبوط کی جا رہی ہیں ۔ اور مارکیٹ میں اڈوں کی خرید وفروخت ہورہی ہے ۔

میرا زور اس بات پر قطعاً نہیں کہ اس آرڈینینس کی تفصیلات کیا ہیں، کیا اختیار کس کو ملا، کیا چیز کہاں سے اٹھا کر کہاں رکھ دی گئی، ان کے مضمرات کیا ہیں، ان کے نتائج کیا ہوں گے، اور ان کو کس طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا ۔ مجھے اس بے معنی گفتگو سے بھی کوئی سروکار نہیں، جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی سابقہ اتحادی پارٹیاں کر رہیں ۔ جیسے یہ کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، ہمیں بتایا نہیں گیا ۔ اور جواباً پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب بات ہوئی تھی، تب بات ہوئی تھی ۔ یہ سب غیر ضروری باتیں ہیں، اور ان کا تعلق اصل میں ”حق شفعہ“ کے دعووں اور دعویداروں سے ہے ۔ یہ انھیں کا کام ہے، اور وہ اسے بہتر جانتے اور بہتر طور پر کرسکتے ہیں ۔انھیں کرنا چاہیے ۔ اور وہ کر رہے ہیں ۔

میرا ذہن جس بات پراٹکا ہوا ہے، اس کا تعلق اس چیز سے بھی نہیں کہ انتخابات آرہے ہیں، اور یہ سب اہتمام اسی میلے کے لیے ہے ۔ کراچی کے اس لین دین کا تعلق انتخابی قبضے کے معاملے سے ہے ۔ چارسال ساڑھے چار سال کسی کو یا د نہیں آیا کہ کراچی میں کون سا نظام کام کرسکتا ہے، یا بہتر کام کر سکتا ہے ۔ اب جب چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے تواس میں اتنی تیزی دکھانے کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو ہے؛ یا پھر بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ دوسری طرف، اس کی اہمیت یوں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ف)، اور پھر (ق) تک حکومت سے علیٰحدہ ہو چکی ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر سندھ کی قوم پسند پارٹیاں اور گروہ تمام کے تمام اس آرڈینینس، یا پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اس بندوبست کے خلاف اکٹھے کھڑے ہو گئے ہیں ۔ پھر یہ بھی کہ مجموعی طور پر یہ ردِعمل سب کے لیے انتہائی غیر متوقع بھی ثابت ہوا ہے، یہ چیز خود اس بات کی گواہی ہے کہ یہ معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔

گو کہ ان تمام دلیلوں میں کافی سچائی ہے، تاہم، یہ سب کسی نہ کسی طور وہی ”حق شفعہ“ کے معاملے سے تعلق رکھتی ہیں، اور ”حق شفعہ“ کی سیاست پر مشتمل ہیں ۔ میرا خیال یہ ہے کہ دو باتیں بہت اہم ہیں، یا یہ کہ انھیں بہت زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے ۔ ان پر توجہ دیے بغیر اس طرح کے سیاسی حربو ں اور سیاسی چالوں کو سمجھنا مشکل ہو گا ۔

یہاں صرف ایک بات کا تذکرہ اختصار سے کیا جائے گا ، اوراس کی تفصیل، اور دوسری بات کا ذکر آئندہ کسی اورکالم میں جگہ پائے گا ۔ پہلی بات یہ ہے کہ سیاسی مینڈیٹ کی حدود کیا ہوتی ہیں ۔ یا یہ قطعاً بے لگا م ہوتا ہے ۔ مراد یہ کہ جیسا کہ چار ساڑھے چارسال یہ سُن سُن کر ہمارے کان پک گئے ہیں : ”عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے، عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے“، اور پھر اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ چونکہ ہمیں مینڈیٹ مل گیا ہے، اب ہم مادرپدر آزاد ہیں، جو چاہیں، وہ کریں، جو نہ چاہیں، وہ نہ کریں ۔ چونکہ ہمیں مینڈیٹ مل گیا ہے، اب ہمارے راستے میں کوئی نہ آئے ۔ یہ عدالتیں، یہ میڈیا، ان کی کیا حیثیت اور کیا مجال ہے کہ ہم پر انگلی بھی اٹھائیں ۔ مینڈیٹ ہمیں ملا ہے، انھیں نہیں، لہٰذا، یہ اپنی اوقات میں رہیں ۔ اور کبھی کبھی تو ان اداروں کو انتخابات میں حصہ لینے کا چیلینج بھی دے دیا جاتا ہے ۔

یہ کوئی آج کی بات نہیں، بلکہ ہمیشہ ہر سیاسی پارٹی، مینڈیٹ کا یہی منتر دہراتی پائی جاتی ہے ۔ لیکن گذشتہ برسوں میں بالخصوص یہ منتر دہرانے کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، اور پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم اس رٹّے میں سرِفہرست رہی ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایک پارٹی، جو اقتدارمیں آ تی ہے، وہ نہ صرف آئینی اور قانونی طور پر با اختیار ہوتی ہے، بلکہ اسے سیاسی فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ اختیار آئین اور قانون کے اندر محدود ہوتا ہے، غیر محدود نہیں ۔ پھر اسے بار بار یہ کیوں کہنا پڑتا ہے کہ عوام نے ہمیںمینڈیٹ دیا ہے، اور ہم جو چاہیں، وہ کرنے میں آزاد ہیں ۔ اس کے پیچھے متعدد چیزیں کارفرما ہو سکتی ہیں ۔ یا تو وہ پارٹی کچھ ایسا کرنا چاہتی ہے، جو کرنے کا اسے آئینی اور قانونی اختیار نہیں ۔ یا پھر وہ یوں اپنی بے عملی، یا اپنی مجرمانہ فطرت چھپانا چاہتی ہے، یعنی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اسے جو کچھ کرنا چاہیے، وہ، وہ کچھ نہیں کرتی، اور اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی کرتوتوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے ۔ یا یہ کہ یہ پارٹی آئین اور قانون کو توڑ مروڑ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے، جو کہ موجودہ حکومت کے دور میں تو معمول بن گیا ہے ۔ یا یہ کہ یہ پارٹی یہ بتانا چاہتی ہے کہ مینڈیٹ کی عطا نے ہمیں آئین، قانون ، قواعد وضوابط، اور اخلاقیات اور روایات سب سے مبریٰ کر دیا ہے ۔ مختصراً یہ کہ مینڈیٹ کا پردہ، کسی نہ کسی عیب یا کرتوت کو چھپانے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے ۔

جبکہ انتخابات میں جیتنے کے ذریعے کسی بھی سیاسی پارٹی کو جو مینڈیٹ ملتا ہے، وہ آئینی دفعات اور قوانین، اور قواعد وضوابط اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات سے متعین ومحدود ہوتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر ملک کے آئین کی روح اس مینڈیٹ کا تعین کرتی ہے ۔ یہ مینڈیٹ کسی بھی طرح بے لگام نہیں ہوتا، بلکہ اس پر ہزار طرح کی آئینی و قانونی قدغنیں عائد ہوتی ہیں ۔ مراد یہ کہ یہ مینڈیٹ، واضح طور پر محدود ہوتا ہے ۔ بلکہ جیسا کہ آئینی ادوار سے قبل بادشاہ لامحدود اختیار کے حامل ہوتے تھے، لیکن آئین کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اختیار کو محدود اور متعین کیا جائے ۔ مزید یہ کہ اختیار کو آئینی، قانونی اور اخلاقی تقاضوں میں متعین اور محدود کرنے کا منشا، یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں سیاسی پارٹیاں، یا حکمران، بادشاہوں کی مانند، شہریوں کی جان ومال کے مالک نہ بن بیٹھیں ۔

لیکن ہر سیاسی پارٹی اپنے انتخابی مینڈیٹ کا پہلا مطلب یہی نکالتی ہے کہ اسے پاکستان کے شہریوں کی جان و مال پر اختیار مل گیا، اور وہ ان کے ساتھ جوسلوک چاہیں، کریں ۔ آئین میں یقینی بنائے گئے بنیادی حقوق کا کیا ذکر، یہ پارٹیاں شہریوں کو انسان بھی نہیں سمجھتیں، اور ان کی زندگی کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہیں ۔ یہی کچھ موجودہ آرڈینینس کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کراچی کو نہیں، کراچی کے شہریوں کو فروخت کر دیا گیا ہے، جو پہلے ہی سیاسی سولی پر چڑھے ہوئے ہیں ۔ ان کی جان ومال کو فروخت کر دیا گیا ہے ۔ جیسی بھی خوشنما باتیں کی جائیں، ہوا یہی ہے کہ کراچی کے ووٹروں کو بیچ دیا گیا ہے ۔ اسے آپ یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کراچی کے ووٹروں کو آنے والے انتخابات کے لیے بیچ دیا گیا ہے ۔ اور بعد کے برسوں کے لیے بھی ۔

دوسری بات مختصراً یہ ہے کہ پاکستان میں ہرچیز کو سیاسی خنجر کی نوک پر چڑھا دیا گیا ہے ۔ یا یہ کہ ہر چیز کو سیاسی بھینٹ سمجھ لیا گیا ہے ۔ اور زندگی کا کوئی شعبہ، بلکہ کونا کھدرا ایسا نہیں بچا، جو سیاست کے شکنجوں سے آزاد ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی بات، قدم یا اقدام یا پالیسی کو آزادانہ اندازمیں نہیں دیکھا جا سکتا ۔ چونکہ ہر چیز سیاست کا شاخسانہ بن گئی ہے، لہٰذا، اس آرڈینینس کو بھی اس سے علیٰحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جب جینرل مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا تو یہ ان کی سیاست کا حصہ نہیں تھا ۔ اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوا کہ اس نظام کو آمریت کو تقویت اور طوالت دینے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ یہ آرڈینینس بھی ایسی ہی سیاست کا نمونہ معلوم ہوتا ہے ۔


[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 18 ستمبر کو شائع ہوئی ۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں