جمعہ، 6 ستمبر، 2013

آرمی چیف کا فلسفیانہ اقدام

حکومتی عہدیداروں کی تقاریر اور بیانات پڑھنا کوئی اچھا تجربہ نہیں ہوتا ۔ بے معنی تکرار اور جھوٹے وعدوں اور دلاسوں کے ساتھ ساتھ ایک نپی تلی بنی بنائی گھڑی گھڑائی زبان کے علاوہ ان میں کوئی مغز کم ہی دستیاب ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے آرمی چیف جینرل اشفاق پرویز کیانی کی یومِ آزادی کی تقریر پر توجہ نہ دی ۔ تاہم، جب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اس کا نوٹس لیا گیا تو مجھے بھی تجسس ہوا ۔ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر نظرڈالی ۔ یہ تقریر وہاں اردو اور انگریزی دونوں میں موجود ہے ۔

اس میں آرمی چیف کہتے ہیں، (یہ ترجمہ خود میں نے انگریزی سے کیا ہے؛ آئی ایس پی آر پر موجود اردو ترجمہ غیر معیاری ہے): ”آج انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سنگین چیلنج درپیش ہے ۔ ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ یہ خطرہ خود ہمارا پیدا کیا ہوا نہیں ۔ تاہم، یہ زاویۂ نظر اس مسئلے کو حل نہیں کر ے گا ۔ ہمارے لیے وضاحت کے ساتھ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کیا ہیں ۔ ان دونوں اصطلاحوں کے بارے میں پریشان خیالی قوم کو تباہ کن انداز میں تقسیم کا شکار کر سکتی ہے ۔“

بالکل درست! بلکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں غلط فہمیاں، قوم کو پہلے ہی بہت مہنگی پڑ چکی ہیں، اور پڑ رہی ہیں ۔ اس کے باوجود، سوسائیٹی کا ایک معتد بہ حصہ، جس کا تعلق بشمول تحریکِ انصاف کے، دائیں بازواوربائیں بازو، دونوں سے ہے، یہ موقف رکھتا ہے کہ یہ جنگ امریکہ نے پاکستان پر مسلط کی ہے، اور یہ کہ یہ پاکستانیوں کی جنگ نہیں ۔

پھر آرمی چیف انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعریف کی طرف آتے ہیں: ”کوئی بھی شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی رائے آخری حکم کا درجہ رکھتی ہے، وہ ایک انتہا پسند ہے ۔ اکمل اور آفاقی عقل صرف خداسے منسوب ہے ۔ انسان، جو ایک دنیوی ہستی ہے، ایک ناقص عقل کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، جو حدود میں گرفتار رہتی ہے ۔ اچھائی کو برائی سے تشخیص کرنے کے حکم کے ضمن میں حرفِ آخر ہونے کا انسانی دعویٰ، خدائی صفات، اور شرک کے مترادف ہے ۔“

حیرانی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہاں آرمی چیف کا انداز فلسفیانہ ہوگیا ہے ۔ وہ مذہبی روایت کے اندر رہتے ہوئے، انسانی عقل کے خطاکار ہونے کا اثبات کرتے ہیں، اوریوں ان لوگوں کو غلط ٹھہراتے ہیں، جو اپنے نظریات کے اکمل وآخر ہونے کے دعویدار ہیں ۔ سائنسدان اور فلسفی بھی اس سے مختلف بات نہیں کرتے: وہ بھی اسی نظریے پر یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ صداقت کے تصور کو ایک رہنما اصول کے طورپر سامنے رکھ کر زیادہ سے زیادہ علم کی جستجو پر مصر رہتے ہیں ۔

جہاں تک ”انتہا پسندی“ کی اصطلاح کا تعلق ہے تو بظاہر اس کا مطلب ہے اعتدال اور میانہ روی کی عدم موجودگی ۔ دوسرے الفاظ میں انتہا پسندی سے مراد ہے مختلف خیالات اور نظریات کے لیے کسی بھی گنجائش کا انکار، بلکہ اگر کوئی گنجائش موجود ہے تو اسے فنا کردینا ۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ جب آرمی چیف یہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص، جو اپنی رائے کو حتمی قرار دیتا ہے، انتہا پسند ہے، تو وہ فلسفیانہ اندازمیں انتہا پسندی کی تعریف کر رہے ہیں؛ اور وہ اکمل و آخر ہونے کے دعوے کو رد کر کے انتہا پسندی کو فلسفیانہ اندازمیں ہی مسترد کرتے ہیں ۔

یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اگرانتہا پسندی خود کو اپنے تک محدود رکھتی ہے، اور دوسروں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی فکر وفہم کے مطابق مختلف نظریات اپنائیں، تو اسے خطرناک نہیں کہا جائے گا ۔ لیکن جیسے جیسے ان کی دلیل آگے بڑھتی ہے، آرمی چیف درست طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ: ”ایک انسان کی حیثیت سے میرے لیے یہ حکم لگانا غلط ہو گا کہ آج کی پیریڈ، دنیا کی بہترین پیریڈ تھی ۔ میں نے دنیا کی ساری پیریڈوں کا معائنہ نہیں کیا ہے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آیا حکم لگانے کے ضمن میں میرا طے کیا ہوا معیار، حرفِ آخر کا درجہ رکھ سکتا ہے ۔ اگر اتنے معمولی سے معاملے میں، میں کوئی آخری حکم نہیں لگا سکتا، تو مذہب اور زندگی سے تعلق رکھنے والے پیچیدہ معاملات میں ایسا کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔“

یہ بھی بہت فلسفیانہ سوچ ہے ۔ اور اسی سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ انتہاپسندی کہاں لے جاتی ہے: ”یہی چیز غضبناک انتہا پسندی بن جاتی ہے، جب کوئی شخص نہ صرف شخصی رائے کو حرفِ آخر قرار دینے پر اصرار کرتا ہے، بلکہ اسے دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اگر کوئی شخص اپنی رائے کو بندوق کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ دہشت گردی بن جاتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام کسی کوعقلِ کل ہونے کے دعوے کی، اور خدائی کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا ۔“

گوکہ آرمی چیف، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے درمیان، ” گمشدہ ربط “ کو قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یا ان سے یہ بات نظر انداز ہو جا تی ہے کہ وہ کیا حالات ہوتے ہیں، جو انتہا پسندی کی قلبِ ماہیت دہشت گردی میں کر دیتے ہیں، جیسا کہ پاکستان میں ہوا ۔ تاہم، ان کا اشارہ اسی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف ہے، جو پاکستان کو تباہ و بر باد کر رہی ہے، اور پاکستانی فوج جس سے برسرِ پیکار ہے ۔ وہ اس چیز کی نشاندہی درست طور پر کرتے ہیں کہ جب انتہا پسندی ، اسلحے سے لیس ہو جاتی ہے (یا یہ کہ ”جب اسے مسلح کر دیا جاتا ہے“) تو یہ دہشت گردی بن جاتی ہے ۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کی فلسفیانہ تعیین و تعریف کی اس کوشش کو بہ نظرِ غائر دیکھنے سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں: کسی شخص کا اپنی آراء کو حتمی قرار دینا، اور پرتشدد ذرائع سے اسے دوسروں پر مسلط کرنا ۔ پاکستان میں جڑ پکڑنے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا یہی منتہا اور یہی مقصود ہے ۔ اس سے بہتر اندازمیں اس کی تشخیص ممکن نہیں ۔ یہاں یہ اضافہ کرنا بجا ہو گا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا پاکستانی مظہر، فاشزم کی سرحدوں سے جڑا ہوا ہے ۔

آرمی چیف اپنی اس فلسفیانہ سعی کو پاکستان کی موجودہ فکری حالت سے جوڑنے کا جتن بھی کرتے ہیں: ”انتہا پسندی اور دہشت گردی کی یہ تعریف اگر درست ہے تو اس کے خلاف جنگ، ہماری جنگ ہے، اور یہ ایک منصفانہ جنگ بھی ہے ۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کے خدشات ہمیں داخلی طور پر تقسیم کر سکتے ہیں، جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے ۔ لہٰذا، اس اہم معاملے سے متعلق ہمارے ذہنوں میں اگر کوئی پراگندہ خیالی موجود ہے تو اس کا صاف ہونا نہایت ضروری ہے ۔“

یہاں کسی وضاحت کی حاجت نہیں ۔ آرمی چیف کا نقطۂ نظر شفاف اندازمیں واضح ہے ۔ اور یقیناً، وہ تمام افراد اور گروہ ، جو خود کو ایسٹیبلِشمینٹ کے رشتے دار سمجھتے ہیں یا خیال کرتے ہیں، انھیں آرمی چیف کی اس تقریر کو توجہ سے پڑھنا اور سمجھنا چاہیے ۔ اس تقریر میں اس نوع کا خاصا فلسفیانہ تفکر موجود ہے، جو ان کی انتہا پسندی اور دہشت گردی، اور ان دونوںکے لیے ان کی حمایت وامداد کو تحلیل کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ جیسے یہ تقریر آرمی کے ادارے کی فکری یکسوئی کا اظہار ہے، اسی طرح، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عذرخواہوں کو بھی اپنا قبلہ اب درست کر لینا چاہیے ۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے آرمی چیف کہتے ہیں: ”انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف آرمی کی جنگ نہیں، بلکہ یہ پوری قوم کی جنگ ہے ۔ ہمیں بحیثیتِ قوم متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ آرمی کی کامیابی کا دارومدار لوگوں کے عزم وارادے اور حمایت پر ہے ۔ آرمی اور لوگوں، دونوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں، جس کے لیے میں شہیدوں، غازیوں اور ان کے گھرانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں ۔“

اور آخرمیں اپنی فلسفیانہ پرواز سے موجود ہ بے رحم سیاست کی بھول بھلیوں کی طرف واپس آتے ہوئے، وہ یہ ”سوفٹ ایڈوائس“ (”ہارڈ ایڈوائس“ نہیں!) دیتے ہیں: ”تاہم، یہ قربانیاں اسی وقت بامعنی بنیں گی، جب سول انتظامیہ، آرمی کی معاونت کے بغیر متاثرہ علاقوں میں نظم ونسق سنبھال لے گی ۔ اس میں کچھ وقت لگے گا، تاہم، ہمارا آخری مقصد یہی رہنا چاہیے ۔ نہایت ضروری ہے کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے مناسب قوانین تشکیل دیے جائیں ۔ 2001 کے بعد سے، دنیا کے بیشتر ممالک نے انسدادِ دہشت گردی کے خصوصی قوانین منظور کیے ہیں ۔ بد قسمتی سے اس قسم کی قانون سازی کے ضمن میں ہماری ترقی کی رفتار بہت آہستہ رہی ہے ۔“

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کہ بالآخر یہ سول انتظامیہ (یعنی ”حکمران سیاسی طبقات“) کا فرض ہے کہ وہ دیکھے، سوچے، اور انتہا پسندی ودہشت گردی کے خطرے سے نبٹنے کے لیے آگے بڑھے، قانون سازی کرے ۔ اس کے مقابلے میں، دیکھا جائے تو سول انتظامیہ، یعنی پیپلز پارٹی کی حکومت کو سیاسی اختیار پر اجارہ قائم کرنے، اوراپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مل کرشہریوں کے ٹیکس کے پیسے کی بند ربانٹ کرنے سے فرصت ملے گی تو وہ سوچے گی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مفہوم کیا ہے، اور اس کا حل کیا ہے ۔ گو کہ یہ ایک حیران کن امر ہے، پھر بھی اگرایک آرمی چیف نے نہایت واضح اندازمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعریف وضع کر دی ہے، اور اس کے خلاف آخری حد تک جنگ لڑنے کے عہد کا اظہار بھی کر دیا ہے تو اب سول انتظامیہ کو بھی ہوش میں آ جانا چاہیے!

[یہ تحریر روزنامہ مشرق پشاور میں 8 ستمبر کو شائع ہوئی ۔]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں